دوران حمل خواتین متعدد جسمانی و جذباتی تبدیلیوں سے گزرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اس دوران جسمانی تبدیلیوں کی جانب ان کا منفی رویہ بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔

سائیکولوجیکل اسسمنٹ جنرل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جسمانی تبدیلیوں کے حوالے سے حاملہ خواتین کے احساسات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے شکم میں موجود بچے کے ساتھ تعلق کس حد تک بہتر ہوسکتا ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد جذباتی صحت کیسی ہوسکتی ہے۔

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف یارک سے منسلک جسمانی ساخت کی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ، ’خواتین بچے کی پیدائش کے دوران اور اس کے بعد بھی اپنی ظاہری جسمانی ساخت کو لے کر مسلسل دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔‘

اسی لیے اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ حمل کے دوران صرف ماں اور بچے کی جسمانی صحت کا ہی خیال نہ رکھا جائے بلکہ خواتین کی جذباتی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جائے، جذباتی صحت ہی ہمیں یہ اہم معلومات فراہم کرسکتی ہے کہ بطور ایک ماں عورت طویل مدتی تناظر میں کس طرح کا ردِ عمل کا اظہار کرسکتی ہے۔

تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حمل کے دوران جن خواتین نے اپنی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں مثبت انداز میں محسوس کیا، ان کے اپنے جیون ساتھی کے تعلقات بڑی حد تک بہتر پائے گئے، ان میں ڈپریشن اور اینزائٹی کی شرح کافی حد تک کم پائی گئی۔

جبکہ وہ اندرونی یا بیرونی جسمانی حالات میں کسی قسم کی تبدیلی پر جسمانی طور پر ملنے والے اشاروں کو سمجھنے میں کافی بہتر رہیں۔ اس کے علاوہ ان کا اپنے شکم میں موجود بچے کے ساتھ زیادہ مثبت تعلق بھی پایا گیا۔

دوسری طرف وہ خواتین جو حمل کے دوران اپنی ظاہری جسمانی ساخت کو لے کر منفی احساسات رکھتی تھیں، انہیں حمل کے دوران اضافی جذباتی سہارے کی ضرورت لاحق ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ بچے کی پیدائش کے بعد پوسٹ نیٹل ڈپریشن (یہ ایک قسم کا ڈپریشن ہے جس کا سامنا والدین کو بچے کی پیدائش کے بعد ہوتا ہے) کی علامات کے لیے مانیٹرینگ مطلوب ہوتی ہے۔

ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ، ’بڑی حد تک یہ پایا گیا ہے کہ حمل کے دوران خواتین کا اپنی جسمانی تبدیلی کا تجربہ ماں اور بچے کی صحت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے. لہٰذا خواتین کو زیادہ منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے نظام صحت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں