راشدہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں جا بجا آلودگی اور گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ آبی گزرگاہیں اب چوہوں کا مسکن نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں آس پاس کے ہوٹل والے بچا کچھا کھانا پھینکتے ہیں۔

سڑکوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔

راشدہ کہتی ہیں کہ ’اسکول سے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا ہے تو ہر طرف اتنا رش، شور اور سیلفی لینے والوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کہ گھر تک پہنچنا دشوار ترین کام بن جاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ رتی برابر بھی خالی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے بچوں کے ہاتھ یا بازو مضبوطی سے تھامنے پڑتے ہیں۔ ہر طرف اجنبی لوگوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

راشدہ اسلام آباد کے شمال مشرق میں واقع سیاحت دوست ہل اسٹیشن مری میں اسکول ٹیچر ہیں۔

دارالحکومت سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقعے مری سیاحوں کے لیے طویل ہفتہ وار چھٹیاں گزارنے کے لیے زبردست سیاحتی مقام ہے، جہاں تک رسائی بھی بالکل آسان ہے۔

رواں برس عید الفطر کے موقعے پر ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 11 ہزار گاڑیوں نے اس علاقے کا رخ کیا۔ مری کی معیشت تقریباً مکمل طور پر ہی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے۔ سیاحت کی وجہ سے ہر سال اچھا خاصا ریوینیو اکھٹا ہوتا ہے اور ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

مگر اس بڑھتی سیاحت کی قیمت مقامی باشندوں کی روزمرہ کی زندگیوں کو شدید متاثر کرتے ہوئے ادا کی جاتی ہے۔ راشدہ کہتی ہیں کہ مری کے سیاحتی مرکز بننے سے مقامی افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوا تاہم کاروباری افراد نے یہاں پر سیاحت کے فروغ کا خیر مقدم کیا۔

دنیا میں تقریباً ہر جگہ سیاحت سے متعلق منصوبوں کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ سیاحتی مقام کے مقامی لینڈ اسکیپ اور سٹی اسکیپ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو سیاحوں کو بھاتی ہوں اور سیاحت کے لیے موزوں ہوں جبکہ وہاں کے مقامی باشندے کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں اسے زیادہ خاطر میں نہیں لایا جاتا۔

یعنی اکثر اوقات اسکولوں، صحت مراکز کے مقامی انفرااسٹرچکر، بجلی کی فراہمی اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے جیسی وہ سہولیات جن کا تعلق مقامی باشندوں کی زندگی سے ہوتا ہے ان میں بہتری نہیں لائی جاتی جبکہ ترقیاتی کاموں کی توجہ صرف ان کاموں پر رہتی ہے جن سے سیاحوں کے لیے تفریح کا سامان کیا جاسکے۔

اگرچہ مری کے مال روڈ جیسے بڑے بڑے تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے لیکن روڈ کے پیچھے ہی موجود عمارتوں کے پاس سڑتے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور گندگی اور غیر ٹریٹ شدہ پانی نہروں اور زیرِ زمین پانی میں شامل ہو رہا ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی باشندوں کے لیے پانی کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ حالیہ مون سون کے موسم میں راشدہ کو اپنے اہل خانہ کے لیے بوتل بند پانی خریدنا پڑا تھا کیونکہ یہ ڈر ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہاں پر پینے کا پانی صحت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔

مری میں بالخصوص خواتین اور بچوں نے باہر آنا جانا کم کردیا ہے جس کی وجہ سڑکوں پر موجود لوگوں کا رش ہے۔ اکثر و بیشتر مقامی تو وہاں موجود تفریح گاہوں یا سیاحوں کے لیے دستیاب سہولیات تک رسائی بھی حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ یا تو وہ ناقابلِ استطاعت ہوتے ہیں یا پھر رسائی دینے سے ہی انکار کردیا جاتا ہے۔

راشدہ نے بتایا کہ ایک بار جب وہ اپنے بچوں اور ان کے ہاں گھومنے کے لیے آئے خاندان کے دیگر افراد کو مقامی پکنک مقام پر گئیں تو انہیں وہاں سے مایوس لوٹنا پڑا کیونکہ وہاں سیاحوں کی گاڑیوں کا شدید ٹریفک جام تھا۔

درحقیقت مری کو دیکھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاحت کے نتیجے میں کون سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق علاقے میں تیزی سے جاری اربنائزیشن کا عمل ہی جنگلات کے خاتمے کی بنیادی وجہ ہے۔

آئی ڈبلیو اے پبلیشنگ کے واٹر پالیسی پر شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق صرف 19 برسوں کے اندر مری میں تعمیر شدہ علاقے میں 22 فیصد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں جنگل کاٹنے پڑے، درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور زیرِ زمین پانی نیچے جانے کی وجہ سے پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہوا۔ سیاحوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر جابجا عمارتیں کھڑی کردی گئی ہیں اور ان کا پھیلاؤ جنگلات کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

گلگت بلتستان کی ہنزہ وادی میں مقامی سیاحت کے بڑھتے رجحان کے باعث ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ آگے چل کر اس علاقے میں بھی ویسا ہی ماحولیاتی بگاڑ پیدا ہوگا جس کا شکار آج مری ہے۔ وہاں جس تیزی سے مقامی کاروبار اور منصوبہ بندی کے بغیر اربنائزیشن کا عمل جاری ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست نے کس قدر مقامی ضروریات کو نظر انداز جبکہ ٹؤرسٹ ایجنڈے کو ترجیح دی ہے۔ ہنزہ کے علاقے کریم آباد سے تعلق رکھنے والی آرکیٹیکٹ صبوحی عیسیٰ کہتی ہیں کہ ’ٹؤرسٹ بزنس سے حاصل ہونے والے منافع کی چمک نے لوگوں کو اندھا کردیا اور انہیں سیاحت کے زبردست بڑھتے رجحان کے نتیجے میں پہنچنے والے دُور رس اثرات نظر ہی آ رہے ہیں۔‘

ہنزہ وادی کے سرحدی قصبے سوست میں مقامی افراد اور سیاح اپنے کاموں میں مصروف ہیں— محمد عارف/وائٹ اسٹار
ہنزہ وادی کے سرحدی قصبے سوست میں مقامی افراد اور سیاح اپنے کاموں میں مصروف ہیں— محمد عارف/وائٹ اسٹار

جب کسی علاقے کے لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں اور زراعت سے جڑے ان کاموں کو ترک کردیتے ہیں جن سے انہیں کسی حد تک خودانحصاری حاصل ہوجاتی تھی تو کرپشن اور تنازع کی راہیں خود بخود ہموار ہوجاتی ہیں۔ صبوحی عیسیٰ کہتی ہیں کہ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہنزہ کے لوگ جو اس قدر پڑھے لکھے ہیں وہ اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کریں گے۔ وہ ماحول کی پرواہ کیے بغیر غیر معیاری ہوٹل تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ‘

11 ستمبر کے واقعے سے قبل بین الاقوامی سیاحوں کا مرکز رہنے والی ہنزہ وادی میں سیاحت سے معاشرے اور ثقافت پر پڑنے والے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔

صبوحی عیسیٰ کے مطابق کریم آباد کے مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سیاحت کے شعبے پر بڑھتے انحصار کی وجہ سے اپنے بنیادی ذرائع معاش اور فارمنگ سے جڑے کام ترک کرچکی ہے۔ مری سمیت ہر اس جگہ میں یہی صورتحال ہے جسے سیاحتی صنعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہاں کے مقامی باشندوں نے بھی فارمنگ کا کام چھوڑ کر خود کو جال میں پھنسا دیا ہے۔ مری میں ایک سودے سلف کی دکان کے مالک واصف کہتے ہیں کہ ’پہلے مری میں لوگ اپنی خوراک، گندم اور دیگر چیزیں اگایا کرتے تھے لیکن اب کوئی بھی یہ کام نہیں کرتا۔‘

شمال میں واقع دلکش نظاروں سے بھرپور مقام گلگت کے رہائشی ظہیر خان اس بات کے ٹھوس دلائل رکھتے ہیں کہ کس طرح سیاحت نے اس علاقے میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مقامی سیاحت میں اضافے کی وجہ سے بے شمار مقامی خاندانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ سیاحتی موسم 4 ماہ تک رہتا ہے لیکن اگر لوگ موسم گرما میں اچھی خاصی کمائی کرلیں تو موسمِ سرما کے مہینوں میں بھی بڑے آرام سے اپنا گزارا کرلیتے ہیں۔‘

تاہم وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاحت کے منفی پہلو بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ دراصل سیاحتی صنعت کو مناسب مانیٹرنگ اور ریگولیشن کے بغیر ہی فروغ دیا گیا۔ جس کے سبب دلکش فطری نظاروں کے حامل مقامات پر جلدبازی میں متعدد ہوٹل اور تفریح گاہوں کی تعمیر ہوگئی۔ جیسے جیسے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیچھے چھوڑے گئے کوڑے کرکٹ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کے باعث ان مقامات کے صاف و شفاف ماحول اور نظاروں میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

منصوبہ کاروں کا ماننا تھا کہ دیواربند شہر کے تحفظ سے علاقے کے لیے معاشی خوشحالی پیدا ہوگی—محمد عارف/وائٹ اسٹار
منصوبہ کاروں کا ماننا تھا کہ دیواربند شہر کے تحفظ سے علاقے کے لیے معاشی خوشحالی پیدا ہوگی—محمد عارف/وائٹ اسٹار

صبوحی عیسیٰ کے مطابق، سیاحتی صنعت کی وجہ سے کریم آباد کا سماجی ڈھانچہ زبردست حد تک تبدیل ہوا ہے۔

11 ستمبر کے بعد گلگت اور ہنزہ میں سیاحت ماند پڑگئی تھی۔ پاکستان کو ایک خطرناک ملک کے طور پر دیکھے جانے کی وجہ سے بین الاقوامی سیاح یہاں آنے سے گبھرانے لگے تھے۔ جیسے جیسے ہنزہ میں ویرانی چھاتی گئی ویسے ویسے نوجوان اور پڑھے لکھے ہنزہ کے وہ باسی جو اس واقعے سے پہلے کی طرزِ زندگی کے عادی ہوچکے تھے انہوں نے مواقع کی تلاش میں دیگر علاقوں کا رخ کیا۔ چنانچہ سیاحت کی لہر ہی مقامی لوگوں کے بکھرنے اور برادرانہ تعلقات ٹوٹنے کی اہم وجہ رہی ہے۔ عیسیٰ کہتی ہیں کہ ’جب میں اپنے آبائی علاقے کی اجنبی لوگوں سے بھری سڑکوں پر چلتی ہوں تو جذبات مجھ پر حاوی ہوجاتے ہیں۔‘

ہمارے سامنے چند ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سیاحت کے دُور رس اثرات کی وجہ سے علاقے کی حقیقی کشش اور معاشی خوشحالی کو زک پہنچی ہے۔

سیاحت کے باعث علاقوں میں بہتری یا اشراف داری کی مہم کی راہ ہموار ہوتی ہے، جس کے تحت ان علاقوں کو ’غیر مطلوبہ عناصر’ (کبھی کبھار تو ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے وہاں آباد ہوتے ہیں) سے پاک کرتے ہوئے سیاحوں کے لیے زیادہ سہولیات کا حامل بنایا جاتا ہے اور مختلف مقامات کی بحالی اور بہتری کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

بالآخر، غربا سے ان علاقوں کو خالی کروا دیا جاتا ہے۔ سیاحت سے جڑی اشراف داری کے عمل کی مثالیں محض نیا کے اس حصے تک ہی محدود نہیں ہے۔ کیریبئن آئی لینڈ اینٹی گوا کو ہی لیجیے جہاں کے کناروں کو کروز شپ کے مسافروں سے منافع بٹورنے کے مقصد سے پُرکشش بنانے کی خاطر کیے جانے والے ترقیاتی اقدامات کی وجہ سے مقامی افراد کو نہ صرف اپنے گھروں کو خالی کرنا پڑا بلکہ کاروباری مراکز اور کھیل و دیگر فراغت کی سرگرمیوں کے لیے موجود جگہوں کو بھی چھوڑنا پڑا۔

اپنے ملک میں ایسی ہی ایک مثال چاہیے تو لاہور کے دیواربند شہر کو لیجیے۔ لاہور کے شہری فورٹ روڈ کی فوڈ اسٹریٹ کو ’امیروں کی جگہ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہاں موجود کسی شاندار ریسٹورینٹ پر گھروالوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا جائے تو اس کے بل اور مزدور پیشہ فرد کی ماہانہ تنخواہ میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔ یہاں کے پرانے رہائشی ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب اس علاقے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے قبل آس پاس کی یادگاروں اور منٹو پارک تک صبح کی چہل قدمی کے لیے آسانی سے پہنچا جاسکتا تھا۔

لاہور میں دیواربند شہر کے ثقافتی ورثے میں شامل مقام میں بڑھتے سیاحتی رجحان کے باوجود علاقے کے کئی رہائشیوں کے پاس خودمختار انداز میں کمانے کے مواقع نہیں رہے۔ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے منصوبے کے طور پر دہلی گیٹ کے اندر واقع تاریخی شاہی گزرگاہ کی تزئین و آرائش کا کام قابلِ تعریف ہے۔

منصوبہ کار اور حکام سمجھتے تھے کہ یہ منصوبہ پورے علاقے کے لیے معاشی خوشحالی کا باعث بنے گا۔ تاہم وہاں آنے والے سیاحوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجود ریسٹورینٹ، ٹؤر آپریٹرز، گائیڈز اور فوٹوگرافرز کی صورت میں کی جانے والی زیادہ تر منافع بخش کاروباری سرگرمیوں میں وہاں کے رہائشیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

بے روزگاری، مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں سے ستائے ہوئے زیادہ تر غریب رہائشیوں کے منہ سے اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ، ’یہ سب سرخی پاؤڈر ہے۔‘

ٹھیہ لگانے والے اور دکاندار یا تو دیگر جگہوں پر چلے گئے ہیں یا پھر دہلی گیٹ کے اندر شاہی گزرگاہ میں ترقیاتی عمل کے دوران اور اس کے بعد انہیں اپنی کاروباری سرگرمیاں ختم ہی کرنا پڑ گئیں۔

گیٹ کے داخلی حصے سے ہٹائے گئے ٹھیے لگانے والے کا کہنا ہے کہ ’ہم عرش سے فرش پر آگئے ہیں۔‘

لاہور کے دیواربند شہر میں موجود دکانیں—محمد عارف/وائٹ اسٹار
لاہور کے دیواربند شہر میں موجود دکانیں—محمد عارف/وائٹ اسٹار

ڈان ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون کے مطابق اگر پاکستان نے سیاحتی شعبے میں غیر معمولی بہتری پیدا کی تو اس کے جی ڈی پی کو ممکنہ طور پر 3 ارب 50 کروڑ ڈالر کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

سیاحت بھلے ہی معیشت کے لیے ممکنہ طور پر اتنی زیادہ منافع بخش ہو لیکن یہ واضح رہے کہ منافع کا یہ حساب کتاب افادیت پسندی پر مبنی ہے کہ جس میں سماجی انصاف کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔ ایک ایسی دنیا جو اس قدر بدل چکی ہے کہ اس میں اب اکثر علاقوں کے لیے پرانی سرگرمیوں کی بحالی کی زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہے، جس کی ایک حد تک وجہ یہ ہے کہ اپنے اثاثوں سے نقد منافع کی خواہاں آبادیوں سے تعلق رکھنے والے علاقہ مکینوں نے درحقیقت خود اپنے لیے یہ راہ چنی ہے۔

معاشیات لاگت اور منافع کا تو محتاط تجزیہ فراہم کرسکتی ہے لیکن ان تجزیات میں آلودگی، لوگوں کی نجی زندگی کو لاحق خطرات اور زندگی کو پہنچنے والے نقصان کو لاگت کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ سیاحت کے ایسے بہت سے سائڈ افیکٹس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔

دنیا کے دیگر حصوں میں واقع ایسے اکثر مقامات جہاں سیاحت کو فروغ دینے کی خاطر کیے گئے اقدامات سے پہنچنے والے زبردست نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمیں محتاط رہنے کی تجویز تک ہی محدود نہیں رہنا ہوگا۔ سیاحت کے شعبے میں ایک دُور رس حکمت عملی اسی وقت کارگر ثابت ہوگی جب سیاحت کے فروغ سے متعلق اقدامات کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کے حالات کی بہتری اور جنگلات و دیگر ایسے قدرتی وسائل کے تحفظ و تجدید سے متعلق پروگراموں پر عمل کیا جائے گا۔

واصف کہتے ہیں کہ، ’مری کا حسن ختم ہوگیا ہے۔‘

مقامی افراد کے نزدیک گزشتہ 2 برسوں کے دوران (عیدین کے علاوہ) سیاحوں کی آمد میں آنے والی معمولی کمی کی وجہ کا تعلق کسی حد تک ماحول کی خرابی ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاحوں نے زیادہ صاف اور سبز ریزورٹس کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ رجحان واصف جیسے لوگوں کے مفاد میں بہتر نہیں جن کے روزگار کا بڑی حد تک انحصار سیاحت پر ہے۔

دنیا بھر میں ممالک اور کمیونٹیز کی جانب سے ماحولیاتی سیاحت یا ثقافتی سیاحت کے لیے پروگرام مرتب دیے جا رہے ہیں تاہم ان کے نتائج ملے جلے حاصل ہوئے ہیں۔ سیاحت کی زیادتیوں پر قابو پانے کے لیے ایک ایسی آزادانہ پالیسی درکار ہے جس میں مقامی افراد، مقامی ثقافت اور ماحول کو خاص ترجیح دی گئی ہو۔

ریاست پر لازم ہے کہ وہ مقامی افراد کی زندگیوں میں صرف سیاحوں کی سہولیات و تفریح سے متعلق منصوبوں پر توجہ دیتے ہوئے بہتری لانے کی کوشش نہ کرے بلکہ ایسی اسٹرکچرل بہتریاں لائے جن کی مدد سے مقامی افراد کو دُور رس فوائد حاصل ہوسکیں اور لوگوں کے ذرائع معاش سیاحتی شعبے تک محدود نہ ہو۔ اگرچہ سیاحتی شعبے سے علاقے کو مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق و سہولیات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سے آزاد ہوچکی ہے۔

اسی حوالے سے ظہیر بابو سر پاس پر ڈرائیونگ کے دوران ہونے والے ’خوفناک تجربوں‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ شاندار گلیشیرز پر جابجا ڈائپرز اور پلاسٹک کوڑا بکھر ہوا ملتا ہے۔ یہ سیاحوں کی وہ نشانی ہے جو ملک کے تمام سیاحتی مقامات پر واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔

گلگت میں جہاں پہلے ہی ٹریفک کے بہاؤ میں کافی بدنظمی پائی جاتی ہے وہیں موسم گرما کے دوران سیاحوں کی اتنی زیادہ گاڑیاں آئیں کہ ’پیر رکھنے کی جگہ‘ نہ ملے۔ اگرچہ خان پُرامید ہیں کہ سیاحت سے آگے بھی گلگت کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ حکومت پر زور ڈالتے ہیں کہ سیاحتی شعبے کو ریگولیٹ کیا جائے اور قدرتی آماجگاہ کی تعمیر و تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر وہاں کے مقامی لوگوں کو کسی طرح کا معاشی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو بھی یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں نہ صرف سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں بلکہ مقامی افراد کی زندگیوں میں بھی بہتری پیدا کریں۔


عنیقہ خان ایس آئی یو ٹی کراچی سے بطور فیکلٹی ممبر سینٹر بائیو میڈیکل اتھکس اینڈ کلچر منسلک ہیں اور وہ تعلیم و ماحولیات کے موضوعات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

رابعہ نادر لاہور اسکول آف اکنامکس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور اس وقت شہری ماحولیات اور تعمیراتی ورثے کے تحفظ پر ہونے والے تحقیقی کام میں مصروف عمل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Abdi Nov 05, 2019 08:55pm
WE get use to grow like weed, be it our family system, neighborhood or city or country i.e. without planning and have no civic sense. So "Kawwa chala huns key chaal or apnee bhe bhool gaya"