صاحبو،

  • سیلف ہیلپ لٹریچر آپ کو نفسیاتی مریض بنا رہا ہے،
  • موٹیویشنل اسپیکرز ہمیں بے وقوف بناتے ہیں،
  • کارپوریٹ ٹریننگ کے نام پر آپ کو لوٹا جارہا ہے۔

ممکن ہے یہ نعرے آپ نے شہر کی دیواروں پر نہ دیکھے ہوں کہ ادھر ’محبوب آپ کے قدموں میں‘ اور ‘پوشیدہ امراض کا شرطیہ علاج‘ والے اشتہارات کی بھرمار ہے، مگر اب ہمارے قلم کار، بلاگر، ولاگر، دانشور اپنی فیس بک والز پر ایسے نعرے اکثر ٹانگنے لگے ہیں، یار بیلی ویڈیوز بناتے ہیں، کتابیں لکھ کر بھولے بھالے عوام کو سمجھاتے ہیں کہ پگلو، ان سیلف ہیلپ کتب سے دُور رہنا، گھن چکر بنا دیں گی۔

بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں، کامیابی کی خواہش اور تلاش شدت اختیار کرجائے تو یہ ایک دلدل کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ سیلف ہیلپ لٹریچر میں آپ دھنستے جائیں گے، ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کتاب۔ پہلے ایک موٹیویشنل اسپیکر کی ویڈیو دیکھیں گے، پھر دوسرے کی۔ جو بھا جائے گا، اس کے لیکچرز بار بار سنیں گے اور پھر جھنجھلا کر خود سے سوال کریں گے، ’اتنا بہت سا وقت، پیسہ اس لٹریچر پر خرچ کرنے کے باوجود میں اب تک ناکام کیوں ہوں؟ نہ تو میرے پاس بنگلا، نہ ہی گاڑی، کیریئر کے میدان میں بھی میں اناڑی۔ بیوی بچے مجھ سے نالاں، ساس سسر بھی شاکی۔ چکر کیا ہے بھائی؟‘

یہ کڑوے کسیلے منفی خیالات آپ کی مجموعی سوچ پر ایسا ڈاکہ مارتے ہیں کہ آپ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، ہر وقت ان ہی کو سوچے جاتے ہیں۔ سوچ جب اغوا ہوجائے تو آپ جیسے اغواکاروں کے غلام بن جاتے ہیں، اور یہ غلامی آپ کی ذہنی صحت پر ٹھیک ٹھاک منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

مگر ٹھہریے، اگر یہ سب باتیں سچ بھی ہیں، کیا تب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ Goals (مقاصد) کا تعین کرنا، یا Success (کامیابی) کا تعاقب منفی عمل ہے؟ کیا سیلف ہیلپ لٹریچر، تمباکو کی طرح صحت کے لیے مضر ہے؟

جواب ہے: نہیں!

گو ’کچھوا اور خرگوش‘ کی کہانی بھی ایک سیلف ہیلپ اسٹوری ہی ہے، مگر اب یہ لٹریچر ایک انڈسٹری بن چکا ہے، اسے پراڈکٹ کے طور پر مارکیٹ کیا جاتا ہے، مرچ مصالحہ لگا کر اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود اس لٹریچر کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا کے کامیاب ترین افراد کی آپ بیتیاں پڑھیں، دُور کیوں جائیں، وارن بفٹ، بل گیٹس، مارک زکر برگ، اوپرا وانفر سے پوچھ لیں، کتب، بالخصوص سیلف ہیلپ کتب کا تذکرہ مل ہی جائے گی۔

ٹھیک ہے، آج موٹیویشنل کوچز کی برسات ہورہی ہے، ایک سیلاب آگیا مگر کیا یہ سچ نہیں کہ بااثر خطیبوں نے ہمیشہ سامعین کو متاثر کیا، انہیں تحریک دی، حوصلہ دیا۔ ابراہم لنکن، چرچل، قائدِ اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو، امریکا میں سیاہ فام جدوجہد کی توانا ترین آواز مارٹن لوتھر کی تقریر I have a Dream اس کی توانا مثال ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ میں تقریر کا بھی خاصا چرچا رہا۔

طوالت کا اندیشہ ہے، ورنہ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ کئی ممتاز شخصیات اپنی کامیابیوں کو ان کتابوں کے مرہون منت قرار دیتی ہیں، جنہیں معتوب ٹھہرانے کو آج مختلف طبقات درپے ہیں۔

البتہ انہی اعتراضات میں بہرحال کچھ ایسے نکات ضرور ہیں، جن پر غور و فکر کے بعد چند ترامیم کرکے ہم نسخہ کیمیا پاسکتے ہیں۔

تو کامیابی کی ترکیب حاضر ہے۔

اگر آپ کامیابی کی تلاش میں ہیں تو آپ کو ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ہوگا کہ کامیابی کسی منزل کا نام نہیں۔ ایسی منزل، جس پر پہنچ کر آپ کے سب دکھ درد تمام ہوجائیں، کامل خوشی اور مستقل سکون ہاتھ آجائے۔ کامیابی سے متعلق یہی غلط تصور اس نفسیاتی دباؤ کا سبب ہے، جو اس لٹریچر کو بار بار پڑھ کر، یوٹیوب پر ایسی ویڈیوز دیکھ کر اور دیگر افراد کی کامیابی کی کہانی سن کر جنم لیتا ہے۔ ہم کامیابی کو ایک مستقل، ٹھوس شے سمجھ لیتے ہیں، جسے حاصل کرتے ہی ہمارے سارے دکھ درد تمام ہوجائیں گے۔ کوئی پریشانی پاس نہیں بھٹکے گی، جذباتی اندیشے تمام ہوں گے اورخدشہ دم توڑ جائیں گے۔

کامیابی کے ایسے ہی ناممکن تصورات کی وجہ سے وہ سماجی اور ذہنی دباؤ جنم لیتا ہے، جسے ماہرینِ نفسیات مضر خیال کرتے ہیں۔

اگر آپ کے ذہن میں کامیابی یا Success کا تصور واضح ہو تو آپ کبھی اس جھنجھٹ میں ہی نہیں پڑیں گے۔ خیال رہے کہ یہ کوئی آسمان سے اتری شے نہیں، کوئی جادوئی منزل، کوئی طلسماتی تصور نہیں۔

جی، کامیابی سے مراد ہے، فقط اپنے مقاصد کا حصول ہے۔ بدقسمتی سے ادھر مقاصد کا لفظ بھی بار بار استعمال ہوکر گھس پٹ گیا۔ اسے سن سن کر ہماری ناک میں دم ہوا اور کان پک گئے۔

جس طرح کامیابی کا سادہ سا مطلب مقاصد کا حصول ہے، ویسے ہی مقاصد کا مطلب یومیہ ان کاموں کو انجام دینا ہے جن کی انجام دہی آپ کے فکری، پیشہ ورانہ، سماجی، جسمانی اور روحانی ارتقا یا ’گروتھ‘ کے لیے ضروری ہو۔

مقاصد کو یوں سمجھیں۔ روز صبح بیدار ہونے کے بعد آپ کے سامنے کچھ چھوٹے بڑے اہداف ہوتے ہیں، جو آپ کی زندگی کے 5 (فکری، پیشہ ورانہ، سماجی، جسمانی اور روحانی) اہم شعبوں سے متعلق ہوتے ہیں اور ہر ہدف کا حصول آپ کو زندگی میں بہتری کی جانب لے جاتا ہے۔

ہاں، آپ طویل المدتی منصوبوں کا تعین کرسکتے ہیں۔ دنیا کا بہترین لکھاری، رقاص یا مصور بننا۔ مگر ان طویل المدت مقصد کا حصول بھی یومیہ بنیادی پر انجام دیے جانے والے چھوٹے چھوٹے اقدام، سرگرمیوں اور فیصلوں ہی سے ممکن ہے (کچھوے کا فارمولا ہمیشہ کام کرتا ہے۔)

روزانہ وقت پر دفتر جانا، یونیورسٹی اسائمنٹ پورے کرنا، اپنے بچوں کو روز ایک نصیحت کرنا وہ یومیہ مقاصد ہیں، جن کی تکمیل بڑے مقاصد کے حصول میں معاون ہوگی۔

روزانہ وقت پر دفتر جانے کا نتیجہ پروموشن، یونیورسٹی اسائمنٹ وقت پر کرنے کا نتیجہ امتحان میں کامیابی اور اپنی اولاد کو یومیہ نصیحت کرنے کا نتیجہ ایک اچھے شہری کی صورت نکلتا ہے۔ یوں چھوٹے چھوٹے قدم ہمیں بڑی منزل کی سمت لے جاتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا سفر بھی پہلے قدم ہی شروع ہوتا ہے۔

اگر کامیابی کا کوئی راز ہے تو وہ یومیہ بنیادوں پر انجام دی جانے والی سرگرمیوں میں چھپا ہوا ہے۔ روز مطالعہ، روز ورزش، روز مشق، روز محنت۔ تو جناب کامیابی اور مقاصد سے متعلق روایتی تصورات جھٹک کر آگے بڑھیں۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے، خود کو اس کے حوالے کردیں۔

یاد رکھیں، آخر میں تیز رفتار خرگوش نہیں، قدم بہ قدم، مسلسل آگے بڑھنا والے کچھوا فاتح قرار پاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

iftikhar ahmed Oct 25, 2019 10:55am
ابّ یہ بات مولانا کو کون سمجھاوے
Rizwan Oct 25, 2019 03:14pm
کسی اور کا بھلا ہو نا ہو ان تقریروں والوں کا بہے بھلا ہو رہا ہے۔ اپنے ناکام ترین کارناموں سنا سنا کر عوام کو آگے لگایا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص خود اپنے آپ سے نہی سیکھ سکتا اپنی منزل کاطع نہی کرسکتا ان سب کے لیے اس اسپیکرز ہیں۔