امریکا کا پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کے آغاز پر غور

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2019
افغانستان میں سیاسی حل کوفروغ دینے کی مشترکہ کوششوں کی بنیاد پر ہم اپنے تعلقات وسیع کرنے کے قابل ہوئے ہیں — فائل فوٹو: وائٹ ہاؤس
افغانستان میں سیاسی حل کوفروغ دینے کی مشترکہ کوششوں کی بنیاد پر ہم اپنے تعلقات وسیع کرنے کے قابل ہوئے ہیں — فائل فوٹو: وائٹ ہاؤس

واشنگٹن: سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کے ازسرِ نو آغاز کے لیے وسیع پیمانے پر اعلیٰ سطح بات چیت پر یقین رکھتی ہے اور مذاکرات کا طریقہ تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کے لیے موجودہ انتظامیہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے متعارف کروائے گئے مذاکرات کے طریقے کو تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے۔

واشنگٹن میں حالیہ بریفنگ کے دوران امریکی عہدیدار نے پاکستان اور بھارت کی افواج کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن کے قیام کا خیرمقدم کیا اور دونوں ممالک کو اس ہاٹ لائن کا استعمال کرنے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان کے ساتھ معاشی سرگرمیاں بڑھانے کا عندیہ

پاکستان کے ساتھ منظم مذاکرات کو بحال کرنے سے متعلق واشنگٹن کے منصوبے پر سوال کے جواب میں امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’منظم مذاکرات کا طریقہ سفارتی طریقہ کار تھا، جو باراک اوباما کی انتظامیہ کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اسی طریقے سے ان کی انتظامیہ نے پاکستان سے تعلقات قائم کیے تھے‘۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ 'اگر غور کریں تو ٹرمپ انتظامیہ کے تحت پاکستان کے ساتھ ہمارے اعلیٰ سطح پر رابطے رہے اور وزیراعظم عمران خان کے واشنگٹن کے دورے سے یہ ظاہر بھی ہوا‘۔

خیال رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے پاکستان سے بات چیت کے لیے مختلف فورمز قائم کیے تھے، جس میں واشنگٹن اور اسلام آباد میں ایک سال میں کئی مرتبہ وزارت اور سرکاری سطح پر بات چیت شامل تھی۔

علاوہ ازیں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بات چیت کے لیے بھی ایک علیحدہ فورم قائم کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’وزیراعظم کا دورہ امریکا، تعلقات کو نئی جہت بخشے گا‘

امریکی عہدیدار نے بتایا کہ ’افغانستان میں سیاسی حل کو فروغ دینے کی مشترکہ کوششوں کی بنیاد ہر ہم اپنے تعلقات وسیع کرنے کے قابل ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم غور کررہے ہیں کہ کس طرح ہم تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری کو فروغ دے سکیں اور یہ روابط جاری رہیں‘۔

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سمت سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان کے تحت پاکستان کی جانب سے مثبت اقدامات دیکھے ہیں، جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچاؤ کے لیے 27 اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘۔

مقبوضہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی عہدیدار نے کہا کہ پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم سے حالیہ ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ نے براہ راست کشمیر کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

عہدیدار نے کہا کہ ’اگر دونوں ممالک چاہیں تو امریکی صدر ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔

تاہم بھارت کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد کرنے سے متعلق امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکا، بھارت کی پوزیشن سمجھتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی کوشش نہیں کررہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: وزیرِِاعظم عمران خان نے دورہ امریکا سے کیا کچھ حاصل کیا؟

ان سے سوال کیا گیا کہ بھارت چاہتا ہے کہ جب تک نئی دہلی کی خواہش کے مطابق اسلام آباد کی جانب سے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اس وقت تک مذاکرات نہیں ہوں گے تو کیا واشنگٹن اس کی حمایت کرتا ہے؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ہم یہ اہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مستحکم اقدامات کرے‘۔

عہدیدار نے کہا کہ ان تحفظات کے باجود مذاکرات ہونا ممکن ہے اور ہم دو پڑوسی اور جوہری ممالک کو مذاکرات کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

رواں ہفتے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مقامی انتخابات سے متعلق امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'مقامی انتخابات حالات کو معمول پر لانے کا متبادل نہیں ہوسکتے‘۔

عہدیدار نے کہا کہ ’کشمیر میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما گھروں میں نظر بند ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی عمل کب بحال ہوگا اور وہ رہنما کب رہا ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ان رہنماؤں کو فوری رہا کرنے پر زور دیتے ہیں، ان پر کوئی الزامات عائد نہیں، اصل مذاکرات کے لیے اہم ہے کہ کشمیر میں موجود سیاسی رہنما ملاقات کریں اور سیاسی عمل میں مصروف ہوں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں