شمالی شام میں کرد دہشت گرد تنظیموں پی کے کے، وائی پی جی اور پی وائی ڈی کے خلاف ترکی کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن کے بعد کردوں کے بارے بہت کچھ لکھا اور سوچا جا رہا ہے۔

مغرب اور عرب میڈیا کا تو ایک خاص پس منظر ہے جس کی وجہ سے وہ کرد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کو کردوں کے خلاف جنگ بناکر پیش کرتے ہیں، لیکن برِصغیر میں ایسی سوچ پیدا ہونے کی کچھ تاریخی وجوہات اور کچھ مغرب و عرب کے اثرات ہیں۔

افسوس یہ کہ وہ لوگ بھی اس میں پیش پیش ہیں جو بلوچستان میں سرگرمِ عمل علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یا (بی ایل اے) کو دہشت گرد سمجھتے ہیں یا پاکستانی ریاست پر حملہ آور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو خونی جنگجوؤں کا گروہ قرار دیتے تھے۔

کرد ویسی ہی ایک نسل ہے جیسے عرب، تاجک، ازبک، ترک، مغل اور دیگر باقی نسلیں ہیں۔ تقریباً 3 کروڑ کرد آبادی ترکی، عراق، شام اور ایران میں آباد ہے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ کرد ترکی میں آباد ہیں جو اس کی کل آبادی کا 20 فیصد حصہ بنتے ہیں۔

ترکی کے کرد شہری باقی معاشرے کی طرح متنوع خیالات کے مالک ہیں۔ میں قونیہ شہر کی سلجوق یونیورسٹی میں ترک زبان کا کورس کررہا تھا تو یونیورسٹی میں مجھے ایسے کرد بھی ملے جو پنجگانہ نماز پورے اہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے اور خیالات میں خاصے دین دار تھے۔ اسی طرح کچھ کرد ایسے بھی ملے جن کی نظر میں دین محض ایک فریب ہے اور وہ ایک آزاد زندگی گزارتے ہیں۔

کردوں کی نظریاتی اور سیاسی پولرائزیشن کے اس مشاہدے پر اس وقت مہر تصدیق لگی جب ترکی کے صدارتی انتخابات پر مجھے کرد منصف اور دانشور وحید الدین انجے کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس انٹرویو میں وہ پولرائزیشن کا ذکر کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ کرد آبادی میں بہت سارے کرد ایسے ہیں جو روایتی طور پر رجعت پسند سنی مسلمان ہیں اور اپنی مذہبی شناخت کو ترجیح دیتے ہں ۔ وہاں سیکولر، سینٹر لیٹ اور انتہا پسند بائیں بازو کے کرد بھی موجود ہیں جو اپنی نسلی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے کرد بھی موجود ہیں جو نہ تو کسی مذہبی شناخت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی نسلی شناخت پر۔

بائیں بازو کے چند شدت پسندوں نے 25 نومبر 1978ء میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے نام سے مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اس دہشت گرد تنظیم کی جانب سے اب تک ہزاروں افراد نشانہ بن چکے ہیں جن میں فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری شامل ہیں۔

اس دہشت گرد تنظیم سے ترکی کبھی بھی چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا، اگرچہ اس تنظیم نے کبھی یکطرفہ طور پر اور کبھی ترک حکومت سے فائر بندی کے معاہدے کے بعد اپنی کارروائیاں کچھ عرصے کے لیے روکیں بھی لیکن عام ترک یا کرد شہری جو اس کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے ان کی جان نہیں چھوٹتی تھی۔

اس تنظیم کے قیام سے ہی اس کو جرمنی اور فرانس سمیت کئی یورپی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ان ممالک نے اس تنظیم کے ممبرز کو نہ صرف اپنے شہروں میں پناہ دی بلکہ تربیت میں بھی ملوث رہے اور دنیا بھر میں ان کو حریت پسند بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ بعد میں ترکی کے پُرزور احتجاج اور کوششوں سے یورپی یونین اور امریکا نے پی کے کے کو دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں شامل کیا۔

پی کے کے کو پروان چڑھانے میں شام کا بھی بہت کردار رہا ہے۔ جب ترک فوج نے اس تنظیم کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا تو اس کا سرغنہ عبد اللہ اوکلان شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں طویل عرصے تک اسے نہ صرف قانونی طور پر پناہ دی گئی بلکہ وادیٔ بقا میں اسے جنگی تربیت کے کیمپ قائم کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ حافظ الاسد کی وفات کے بعد بشار الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد ترکی کے ساتھ شام کے تعلقات میں گرم جوشی آئی اور عبد اللہ اوکلان شام سے بھاگ گیا۔ اسے ترک انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکا کے تعاون سے کینیا کے فضائی اڈے سے گرفتار کرلیا۔

2004ء میں پی کے کے نے شام میں وائی پی جی قائم کی اور عرب بہار کے بعد شام اور عراق کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھایا اور وہاں اپنے نیٹ ورک مضبوط کرکے بیس کیمپ بنا دیے۔ یہاں سے ترکی پر مسلسل حملے ہونے لگے۔ 2011ء میں ترک صدر ایردوان جو کرد علاقوں میں پسند کیے جاتے تھے، خطے کی بہتری کے لیے کردوں کے مسائل کو حل کرتے ہوئے ان دہشت گردوں سے مذاکرات شروع کردیے۔

مذاکرات کے نتیجے میں اس تنظیم کے قیدی رہا کردیے گئے، فائر بندی کا اعلان کیا گیا اور استنبول میں باہمی شیر و شکر ہوکر بڑے جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد ہی شام اور عراق کے کیمپوں سے ترکی پر دوبارہ حملے شروع ہوگئے۔ اسرائیل نے کھل کر پی کے کے اور وائی پی جی کی مدد کرنا شروع کردی اور امریکا نے شمالی شام میں داعش کے خلاف جنگ کے دوران انہیں بھاری اسلحہ دیا اور داعش اور شامی اپوزیشن سے انہوں نے کئی شامی شام حاصل کرلیے۔

شامی سرحد پر موجود ان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پر اسرائیل اور امریکا آکر کھڑے ہوگئے اور انہیں روجاوہ فورسز کے تحت ایک ریاست قائم کرنے کے لیے اکٹھا بھی کردیا گیا۔ یہ ساری کارروائیاں اسرائیل کے مفاد میں تھیں کیونکہ اس طرح وہ براہ راست خطے میں آبیٹھنے کی راہ ہموار کرسکتا تھا، جس کے نتیجے میں ترکی پر مسلسل حملے اور مستقبل میں کسی بڑے خطرے کا امکان تھا۔

ترکی نے ان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے اور ان کی تمام منصوبہ بندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے آپریشن ’فرات ڈھال‘ اور اس کے بعد ’آپریشن شاخِ زیتون‘ کیا گیا۔ آپریشن فرات ڈھال شام کے جبرابلس جبکہ شاخِ زیتون آفرین صوبہ میں کیا گیا۔ ان آپریشنز میں ترکی کے ساتھ شامی اپوزیشن کی قومی شامی فوج بھی حصہ لیتی رہی اور جو علاقہ دہشت گردوں سے صاف کیا جاتا وہاں شامی اپوزیشن مقامی قیادت کے ساتھ شہری ڈھانچہ قائم کردیتی۔

ان صوبوں میں امن کے قیام کے بعد ترکی میں بسنے والے ہزاروں شامی مہاجرین واپس چلے گئے۔ اسی کے تسلسل میں ترکی نے اپنے تیسرے آپریشن جسے ’چشمہِ امن‘ کا نام دیا گیا شمالی شام میں شروع کیا۔ جس کا مقصد نہ صرف دہشت گردوں کا صفایا کرکے دہشت گرد پٹی کا خاتمہ ہے بلکہ ایسے سیف زون کا قیام بھی ہے جہاں لاکھوں شامی مہاجرین اپنی سرزمین پر زندگی کا آغاز کرسکیں۔

کیا یہ آپریشن کردوں کے خلاف ہے؟

جیسے ہی ترکی نے شامی سرحد عبور کی ویسے ہی مغربی اور عرب میڈیا نے شور مچانا شروع کردیا کہ کردوں کے خلاف آپریشن ہورہا ہے، کردوں کی نسل کشی ہونے جا رہی ہے، کردوں پر ظلم ہونے جا رہا ہے لیکن ان دعوؤں کا کوئی ثبوت کہیں نہیں پیش کیا گیا۔

میں یہاں 3 نکات پیش کررہا ہوں جس سے یہ سمجھنے میں کسی حد تک آسانی ہوسکے گی کہ یہ کارروائیاں کردوں کے خلاف نہیں ہیں۔


پہلا نکتہ

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جس طرح ترکی مختلف نظریات اور سوچ رکھنے والی آبادی پر مشتمل ہے اسی طرح اس کی کرد آبادی بھی متنوع ہے جو اس کی کل آبادی کا 20 فیصد ہے۔ اس میں آپ کو رجعت پسند دین دار بھی ملیں گے، سیکولر، سینٹر لیفٹ اور انتہا پسند بائیں بازو کے کرد بھی موجود ہیں۔

اول طبقہ صدر اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) یا پھر دوسری مذہبی سیاسی جماعت ھدیٰ پارٹی کا حامی ہے جبکہ دوسرا طبقہ عمومی طور پر HDP اور دہشت گرد گروہ پی کے کے کا حامی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ کردوں کا مذہبی دھارا ایردوان اور ترکی کا ساتھ دیتا ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی ہیں جب ترک صدر استنبول اور انقرہ میں ہار رہے تھے تو انہی انتخابات میں وہ نئے کرد حلقوں پر فتح کے جھنڈے اٹھا رہے تھے۔ اس وقت بھی کردوں کی اکثریت ترک صدر ایردوان کی حامی ہے اور اس آپریشن کی حمایت کرتی ہے۔


دوسرا نکتہ

کردوں میں ایردوان کی مقبولیت کی پہلی وجہ تو ان کی اسلام پسندی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایردوان کردوں کے مسائل اور حقائق کو تسلیم کرتے ہیں جو اس سے قبل سیکولر کمالسٹ جمہوریت خلق پارٹی تسلیم نہیں کرتی تھی۔ اردوان نے کرد مسئلے کو بطور مسئلہ قبول کیا۔

ترک صدر نے کردوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا ہے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کیا۔ یہی نہیں بلکہ کردوں کا الگ سے کرد زبان میں سرکاری چینل بنایا، کرد تعلیمی کورسز اور تحقیقاتی ادارے بنائے اور کرد شہروں کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا۔ خود میرے ساتھ اس وقت کئی کرد نوجوان ایسے ہیں جو ترک حکومت کے وظائف پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔


تیسرا نکتہ

شمالی شام میں جب امریکا نے وائی پی جی کے ساتھ مل کر داعش اور شامی اپوزیشن سے کئی شہر فتح کیے تو عرب اور کرد مسئلے نے ان علاقوں میں سنگین بحران پیدا کردیا۔ کیونکہ ان علاقوں میں ’صرف کرد‘ آباد نہیں ہیں بلکہ شام کی اکثریت عرب ہے جبکہ ترکمان اور کرد اقلیتیں ہیں۔ ان علاقوں میں عرب-کرد بحران سے نمٹنے کے لیے امریکا نے صلح صفائی کرواتے ہوئے شامی جمہوری فورس قائم کی جس میں پی وائی جی اور عرب جنگجوؤں کو شامل کیا گیا۔

یہ ایک واضع ثبوت ہے کہ ان علاقوں میں کرد ہی نہیں عرب بھی بڑی اکثریت کے طور پر موجود ہیں۔ ترک حکومت واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ آپریشن چشمہِ امن کردوں کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے خلاف ہے جو اس کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔


صدارتی ترجمان ابراہیم کالِن نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کو بہت خوبصورت جواب دیا کہ کرد اس خطے کی حقیقت ہیں تمہاری سازشوں کا کردار نہیں۔ تم کردوں کے نہیں بلکہ پی کے کے کے دوست ہو!

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Engineer Oct 29, 2019 12:37pm
Good explanation. Keep on writing on this issue.
محمد بشیر چوھدری Oct 29, 2019 05:41pm
برادر جناب غلام اصغر ساجد صاحب ترکی، شام کے سرحدی علاقوں اور ترک، کرد تعلقات پر جس تفصیل آپ نے اپنے اس مضمون میں روشنی ڈالی ہے، اس سے موجود جاری آپریشن پر بڑی وضاحت کے ساتھ حالات کا قریب ترین مشاہدہ پیش کر کے حق آگاہی بذریعہ قلم خوب ادا کیا ہے۔ماشاءاللّٰہ اللّٰہ کر زورِ قلم اور پیدا۔ محمد بشیر چوھدری