اینکرز کے تجزیہ پیش کرنے پر پابندی کا معاملہ، چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2019
چیئرمین پیمرا عدالت کو کوئی ایسی شق نہیں دکھاسکے جو ادارے کو ایسی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
چیئرمین پیمرا عدالت کو کوئی ایسی شق نہیں دکھاسکے جو ادارے کو ایسی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت کا نام استعمال کرکے میڈیا ہاؤسز اور اینکر پرسنز کو سخت ہدایات جاری کرنے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین سلیم بیگ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

پیمرا نے حال ہی میں نجی ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیا تھا کہ جس میں اینکر پرسنز کو مختلف ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگار کی حیثیت سے شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔

خیال رہے کہ عدالت نے بول ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) اور اینکر پرسن سمیع ابراہیم کو پہلے اظہار وجوہ (شوکاز) کا نوٹس جاری کیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ان تمام افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حکم دیا جنہیں اب تک شوکاز نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے اینکرز کو پروگرامز میں تجزیہ پیش کرنے سے روک دیا

علاوہ ازیں عدالت نے آئی اے رحمٰن، محمد ضیا الدین، جاوید جبار، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے صدر شکیل مسعود کو نجی میڈیا ہاوسز سے متعلق معاملات میں عدالتی معاون مقرر کردیا۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اینکر پرسن سمیع ابراہیم کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو دی جانے والی ضمانت کو ڈیل سے جوڑنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کررہے تھے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز اور اینکرز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر 26 اکتوبر کو پیمرا کی سر زنش بھی کی تھی۔

جس پر پیمرا نے نجی میڈیا ہاؤسز کو ایک ہدایت جاری کی تھی، تاہم عدالتی حکم کے برعکس پیمرا نے مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں اینکر پرسنز کی تجزیہ کار کی حیثیت سے شرکت پر پابندی عائد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا کا متنازع فیصلہ: وزرا اور صحافتی تنظیموں کی شدید مذمت

اس حوالے سے جب چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کا آغاز کیا تو انہوں نے چیئرمین پیمرا کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ کیا عدالت نے اینکر پرسن کو ٹی وی چینلز پر تجزیہ کار کی حیثیت سے شرکت کرنے پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر چیئرمین سلیم بیگ نے انکار میں جواب دیا۔

جب عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو ایسی ہدایات کیوں جاری کیں جن سے عدالتی احکامات کا تاثر ملا تو اس پر چیئرمین پیمرا کوئی تسلی بخش وضاحت پیش نہ کرسکے۔

چیئرمین پیمرا، عدالت کو کوئی ایسی شق نہیں دکھا سکے جو ادارے کو ایسی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین پیمرا کا طرز عمل اور ہدایات کے ذریعے عائد کی گئی پابندیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت نے ایسی ہدایات جاری کی تھیں جس میں توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت جرم ثابت ہوتا ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے نواز شریف کی رہائی کا تعلق ڈیل سے جوڑنے والے اینکر پرسن سے متعلق بول ٹی وی اور ہم ٹی وی کو اپنے پروگرامز کی ریکارڈنگز 3 روز میں جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی پر پابندی عائد کردی

عدالت نے اینکرپرسن سمیع ابراہیم اور بول ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو کو 7 روز میں تحریری جوابات جمع کروانے کا حکم دیا اور اینکر پرسنز محمد ملک، حامد میر، عامر متین اور کاشف عباسی کو بھی جوابات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تناظر میں توہین عدالت سے متعلق سماعت میں نشاندہی کیے گئے سوالات اور ان کے نتائج کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے معروف صحافیوں کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

معروف صحافیوں کو انصاف کی فراہمی اور عدالت میں زیر سماعت معاملات پر آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متعلق معاونت کرنے کا کہا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق عدالتی معاون پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی رولز 2009 کے سیکشن اے میں موجود ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے متعلق بھی معاونت کریں گے۔

چیئرمین پیمرا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی رواں برس اگست سے لے کر اب تک ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر نجی چینلز کو 70 شوکاز نوٹسز جاری کرچکا ہے۔

سماعت کے دوران حامد میر نے عدالت کی توجہ غیر اعلانیہ سینسرشپ کی جانب مبذول کروائی اور کہا کہ کچھ نامعلوم عناصر ان کے ٹی وی چینلز کے پروگرامز اور خبروں کے مواد پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ اس مسئلے سے بہت اچھے سے آگاہ ہیں لیکن اس وقت عدالت اس معاملے میں کارروائی نہیں کررہی۔

بعد ازاں اسلام آبا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حامد میر کو اس حوالے سے تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کی اور سماعت 18 نومبر تک ملتوی کردی۔


یہ خبر 30 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں