مذہبی، نظریاتی، سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے پرتشدد کارروائی دہشت گردی ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2019
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ تحریر کیا—فائل/فوٹو:سپریم کورٹ
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ تحریر کیا—فائل/فوٹو:سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے منظم انداز میں پر تشدد کارروائی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو تعریف تعین کرنے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی تھی اور چیف جسٹ نے 59 صفحات پر مشتمل فیصلہ خود تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائی، حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف وہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے۔

دہشت گردی کی تعریف کی واضح تعریف کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کے تحت مذہبی طور پر فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں، کارباری برادری، عوام اور سماجی شعبے پر حملے کرنا دہشت گردی ہے۔

مزید پڑھیں:دہشتگردی کی تعریف کے تعین کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل

چیف جسٹس نے فیصلے میں تحریرکیا ہے کہ منظم انداز میں منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کا قانون انتہائی وسیع ہے، پاکستان میں 1974 سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مختلف قوانین متعارف کروائے گئے جس میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی اقدامات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔

انسداد دہشت گردی کے قانون کے ذمرے میں دیگر واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا جلاؤ گھیراؤ، بھتہ خوری اور مذہبی منافرت دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتا۔

فیصلے کے مطابق ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث پولیس، افواج پاکستان اورسرکاری ملازمین کے خلاف پر تشدد واقعات میں ملوث ہونا دہشت گردی نہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے قانون میں ایسے سنگین جرائم کو شامل کیا گیا ہے جن کے سبب عدالتوں میں غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اغوا برائے تاوان جیسے دیگر سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کرنے سے دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے اس لیے ہم پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کا تعین کرے۔

یہ بھی پڑھیں:دہشت گردی مقدمات میں کوئی جرم قابلِ معافی نہیں، سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دہشت گردی کی تعریف کے لیے بین الااقوامی معیار کے تناظر میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی مقاصد کا حصول مدنظر رکھے، عالمی سطح پر یہ طے ہو چکا ہے کہ سیاسی، نظریاتی یا مذہبی مقاصد کے حصول کے بغیر پر تشدد کارروائی دہشت گردی نہیں۔

پارلیمنٹ کو تجاویز دی گئی ہیں کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل ان تمام جرائم کو ختم کیا جائے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دہشت گردی کی تعریف کے تعین کی بات کی تھی اور لارجر بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ 1997 سے اب تک یہ طے نہیں ہوا کہ کون سا مقدمہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں