امریکا کی تربیت یافتہ افغان فورسز کا سفاکانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
رپورٹ میں درج کردہ 14 واقعات جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے عکاس ہیں—تصویر: اے پی
رپورٹ میں درج کردہ 14 واقعات جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے عکاس ہیں—تصویر: اے پی

واشنگٹن: امریکا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی حمایت یافتہ افغان فورسز کے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور صحت کے مراکز پر حملے کرنے میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس چشم کشا رپورٹ میں اہداف کو نشانہ بنانے کے امریکی طریقہ میں تبدیلی کی تفصیلات بھی بتائی گئیں، جس کے مطابق ان فورسز کی جانب سے اندھا دھند فضائی حملوں میں اضافہ ہوا اور شہریوں کو بے پناہ نقصان پہنچا۔

ابیوزِو نائٹ ریڈز بائے سی آئی اے بیکڈ افغان اسٹرائیک فورسز‘ یا سی آئی اے کی حمایت یافتہ افغان فوج کی رات کی غیر انسانی چھاپہ مار کارروائیاں‘ کے نام سے جاری کردہ رپورٹ میں افغان فوج کی بدسلوکیوں کے انفرادی واقعات بھی تحریر کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان فورسز کی ’غلطی‘، فائرنگ سے 6 شہری ہلاک

ہیومن رائٹس کمیشن کے دعوے کے مطابق رپورٹ میں درج کردہ 14 واقعات ’جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے عکاس ہیں اور کچھ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں‘۔

مذکورہ رپورٹ میں سال 2017 کے اواخر سے لے کر 2019 کے وسط تک کے واقعات درج ہیں، جس میں ان ’حملہ آور‘ فورسز کے کمانڈ اینڈ کنٹرول، سی آئی اے کے کردار، امریکی فوج اور افغان حکومت کی نگرانی کی عدم موجودگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وسیع تر سیاسی استحکام کی غیر موجودگی میں امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی بھی معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین تنازع کو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی مختلف افغان گروہوں کے درمیان لڑائی کو بھڑکانے والے اختلافات کو حل کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: 6 ماہ میں تقریباً 4 ہزار شہری ہلاک ہوئے، اقوامِ متحدہ

مزید یہ کہ اگر سیاسی استحکام ہو بھی تو بننے والی افغان حکومت، ملکی دفاعی فورسز کا ڈھانچہ اور موجودہ ملیشیاز اور شورش پسند قوتوں کو غیر متحرک کرنے کا عمل بھی انتہائی اہم ہوگا۔

رپورٹ میں درج کردہ کیسز

رپورٹ میں جن کیسز کا تذکرہ کیا گیا اس میں چند یہ ہیں:

مارچ 2018 میں افغان فوج نے ایک افغان غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے رکن کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں موجود مرد و خواتین کو علیحدہ علیحدہ کردیا گیا۔

جس کے بعد انہوں نے این جی او رکن کے بھائی کو گھر کے دوسرے حصے میں لے جا کر گولی ماردی اور اس کی لاش چھوڑ کر گھر کے ایک مرد کو اپنے ہمراہ لے کر چلے گئے جس کی تحویل کی افغان حکومت کی جانب سے تردید کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'فضائی حملوں سے افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں 39 فیصد اضافہ'

اسی طرح اکتوبر 2018 میں افغان فوج نے ننگر ہار صوبے میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر ایک ہی خاندان کے 5 افراد کو ہلاک کیا جن میں ایک ضعیف خاتون اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔

دسمبر 2018 میں خوست پروٹیکشن فورسز نے صوبہ پکتیہ میں رات گئے ایک سرچ آپریشن کے دوران بے دردی سے 6 شہریوں کو ماردیا جس میں 60 سالہ قبائلی رہنما معین فاروقی، صوبائی امن کونسل کے رکن کی آنکھوں میں گولی ماری گئی اور ان کے ساتھ ان کے بھتیجے کو منہ میں گولی مار قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’صرف یہ چند کیسز نہیں ہیں بلکہ پڑے پیمانے پر جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں بڑی مثالیں موجود ہیں جس میں کچھ جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ سلسلہ افغانستان کے تمام صوبوں میں جاری ہیں جہاں افغان فوج آزادی سے تعینات ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں