بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ضمانت مل گئی

04 نومبر 2019
عدالت نے حکام کو مہلت ختم ہونے سے قبل محمد یونس کو گرفتار یا ہراساں کرنے سے روک دیا تھا — فائل فوٹو / رائٹرز
عدالت نے حکام کو مہلت ختم ہونے سے قبل محمد یونس کو گرفتار یا ہراساں کرنے سے روک دیا تھا — فائل فوٹو / رائٹرز

بنگلہ دیش کی عدالت نے ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو گرامین کمیونی کیشنز سے بطور چیئرمین تین ملازمین کو فارغ کرنے کے کیس میں ضمانت پر رہائی دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق ڈھاکا میں تیسری لیبر کورٹ کی عبوری چیئرمین زکیہ پروین نے عدالت میں پیش ہونے پر محمد یونس کو ضمانت دی۔

بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے گزشتہ ماہ محمد یونس کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے 7 نومبر تک کی آخری مہلت دی تھی۔

ساتھ ہی حکام کو مہلت ختم ہونے سے قبل محمد یونس کو گرفتار یا ہراساں کرنے سے روک دیا تھا۔

عدالتی عہدیدار وسیع الرحمٰن نے کہا کہ عدالت نے محمد یونس کی تینوں کیسز میں 10 ہزار ٹکا (120 ڈالر) فی کیس کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔

وکیل دفاع مستفیض الرحمٰن خان کا کہنا تھا کہ محمد یونس کو اب فرد جرم عائد ہونے سے قبل عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ لیبر کورٹ نے گزشتہ ماہ بیرون ملک ہونے کے باعث پیش نہ ہونے پر محمد یونس کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

گرامین کمیونی کیشنز کے تین ملازمین نے جولائی میں محمد یونس کے خلاف کیس دائر کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت طلب کرنے پر غیر قانونی طور پر برطرف کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے وارنٹ گرفتاری جاری

یاد رہے کہ واضح رہے کہ 79 سالہ سابق اکنامکس پروفیسر محمد یونس ملک کو غربت سے نکالنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر قرض دینے والی کمپنی 'گرامین بینک' کے بانی ہیں۔

انہوں نے لاکھوں دیہی کاروباری افراد کو چھوٹے پیمانے پر قرض فراہم کرنے والا یہ بینک 1983 میں قائم کیا تھا جو لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے انتہائی کامیاب ماڈل ثابت ہوا اور اسی بنا پر محمد یونس اور بینک کو 2006 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

2007 میں ملک کی ایک سمت میں چلنے والی سیاست کے خلاف بولنے کے بعد محمود یونس اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

2011 میں انہیں گرامین بینک کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، انہوں نے اپنی برطرفی کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا تاہم وہاں سے بھی ان کے خلاف فیصلہ آیا۔

بینک پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ قرض داروں سے 20 فیصد سے زائد شرح سود پر رقم واپس لیتا ہے جس پر شیخ حسینہ واجد نے محمد یونس پر غریبوں کا 'خون چوسنے' کا الزام لگایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں