اسحٰق ڈار کو کوئی ریڈ نوٹس نہیں دیا گیا، انٹرپول

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2019
اسحٰق ڈار کی پاکستان میں موجود جائیدادوں کو ضبط کیا جاچکا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسحٰق ڈار کی پاکستان میں موجود جائیدادوں کو ضبط کیا جاچکا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لندن: حکومت کی جانب سے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کو اس وقت سخت دھچکا پہنچا جب دنیا بھر میں جرائم کی روک تھام میں مدد دینے والی بین الاقوامی پولیس تنظیم (انٹر پول) نے بتایا کہ خود ساختہ جلا وطن رہنما کو کوئی ریڈ نوٹس نہیں دیا گیا۔

انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا کہ ’13 مئی 1950 کو پیدا ہونے والے اسحٰق ڈار کو انٹرپول کی جانب سے کوئی ریڈ نوٹس نہیں بھیجا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ فیصلہ جولائی میں ہونے والے انٹرپول کے 109ویں اجلاس میں کیا گیا تھا۔

انٹر پول کے مراسلے کے مطابق ’تمام عناصر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نیتجے پر پہنچا کہ قابلِ اطلاق اصولوں پر عملدرآمد کے لیے پیش کردہ اعداد و شمار نے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار کی برطانیہ سے واپسی کیلئے معاہدہ ہوگیا ہے، شہزاد اکبر

چنانچہ یہ اعداد و شمار انٹر پول کے معلوماتی نظام اور اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتے، جس کے باعث حکام نے اسے ختم (ڈیلیٹ) کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی کارروائی میں متعدد مرتبہ اسحٰق ڈار کے بارے میں دریافت کیا تھا اور ان کی برطانیہ سے بے دخلی میں خاصی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

جس پر جولائی 2018 میں اس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت عظمٰی کو بتایا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی درخواست پر وزارت داخلہ نے ریڈ وارنٹ جاری کردیے ہیں اور اب انٹرپول کا انتظار ہے۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسحٰق ڈار کی پاکستان میں موجود جائیدادوں کو ضبط کیا جاچکا ہے۔

مزید پڑھیں: حسن نواز، حسین نواز، اسحٰق ڈار کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کا فیصلہ

بعدازاں ستمبر 2018 میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیر عباس رضوی نے عدالت میں کہا تھا کہ حکومت اسحٰق ڈار کو وطن واپس لانے کی کوشش کررہی ہے، جس کے لیے ضروری ریڈ وارنٹ کے حصول کے سلسلے میں انٹر پول سے رابطہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اس قسم کی کارروائی میں مطلوبہ فرد کو گرفتار کرنے میں کچھ ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

اس بارے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا کہنا تھا کہ انٹرپول کے پاس کسی کو بے گناہ قرار دینے کا اختیار نہیں کیوں کہ انٹرپول سے صرف متعلقہ شخص کی گرفتاری کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے۔

انٹرپول کی جانب سے اسحٰق ڈار کے ریڈ نوٹس کو مسترد کرنے کے حوالے سے نیب کا کہنا تھا کہ وہ دیگر آپشنز پر غور کررہے ہیں، اسحٰق ڈار کے خلاف مقدمہ صرف پاکستان میں چلایا جاسکتا ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں تو انہیں واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔

ریڈ نوٹس وارنٹ گرفتاری نہیں ہے

انٹر پول کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ریڈ نوٹس کسی ایسی شخص کی تلاش یا عارضی گرفتاری کی درخواست ہوتی ہے جس کا ہتھیار ڈالنا، پیش ہونا یا اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی زیر التوا ہو۔

اس میں عموماً 2 طرح کی معلومات شامل ہوتی ہیں۔

  • مطلوبہ شخص کی شناختی معلومات مثلاً نام، تاریخ پیدائش، قومیت، بال اور آنکھوں کا رنگ، تصاویر اور انگلیوں کے نشان شامل ہوتے ہیں۔

  • مطلوبہ شخص جس جرم میں مطلوب ہے اس کی تفصیلات جو ممکنہ طور پر قتل، ریپ، بچوں کا استحصال یا مسلح ڈکیتی ہوسکتی ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ریڈ نوٹس انٹرپول رکن ملک کی درخواست پر شائع کرتا ہے جو انٹرپول کے آئین کے مطابق ہوتا ہے تاہم یہ ریڈ نوٹس ’انٹرنیشنل وارنٹ گرفتاری‘ نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں