امریکی کانگریس کی ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2019
جیمز میک گورن کے مطابق حق خود ارادیت بنیادی حقوق میں سے ایک ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
جیمز میک گورن کے مطابق حق خود ارادیت بنیادی حقوق میں سے ایک ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی کانگریس کی انسانی حقوق کمیٹی نے بھارت کو ایک مرتبہ باور کروایا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔

2 روز قبل کانگریس کے رکن ٹام لینٹوز کے انسانی حقوق کمیشن نے 5 اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سماعت کی تھی جس میں کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کی غیر معمولی حمایت کی گونج دہائیوں میں شاید پہلی مرتبہ سنائی دی۔

اوہائیو یونیورسٹی میں مرکز برائے قانون و انصاف کی ڈائریکٹر ہیلی دشینسکی نے اپنے اختتامی کلمات میں یہ مسئلہ اٹھایا اور پینل کو یاد کروایا کہ '70 برس سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کیے گئے وعدے کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کا موقع نہیں دیا گیا'۔

مزید پڑھیں: امریکی کانگریس میں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر موضوعِ بحث

ہیلی دشینسکی کے بیان پر بھارتی نژاد امریکی کالم نگار سنندا وشست برہم ہوگئیں اور انہوں نے کہا کہ رائے شماری کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ نہ تو بھارت نہ پاکستان یہاں تک کہ چین بھی اپنے کنٹرول میں موجود علاقے خالی نہیں کرے گا جو استصواب رائے کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'استصواب رائے بہت دور ہے یہ کبھی نہیں ہونے والا'۔

اس بیان پر کانگریس کے رکن جیمز میک گورن برہم ہوگئے اور کہا کہ حق خود ارادیت بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'سنندا وشست، ہم اس اصول کے حق میں کھڑے ہیں اور ہار نہیں مان سکتے جس کے تحت لوگوں کو حق خودارادیت کا حق حاصل ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی خاتون رکن کانگریس کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی مذمت

سنندا وشست نے اصرار کیا کہ کشمیر کا واحد مسئلہ سرحد پار پاکستان سے آنے والی دہشت گردی ہے جس پر کانگریس کی خاتون رکن شیلا جیکس نے کہا کہ 'کسی پورے ملک سے ان اقدامات کو منسوب کرنا جن سے کوئی اتفاق نہیں کرتا ایک خطرناک رجحان ہے'۔

جیمز میک گورن نے کہا کہ 'ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو انسانی حقوق کی عظمت چاہتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے الزامات کو لوگوں کی بنیادی آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ اس بلیم گیم سے کیسے نکلنا ہے'۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 16 نومبر 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں