پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
حکومتی وکیل چوہدری شفقت نے بریت سے متعلق درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا—فوٹو: بشکریہ انسٹاگرام
حکومتی وکیل چوہدری شفقت نے بریت سے متعلق درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا—فوٹو: بشکریہ انسٹاگرام

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ حملے کیس میں وزیراعظم عمران خان کی بریت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اے ٹی سی کے جج راجا جواد عباس نے کیس کی سماعت کی، جہاں وکیل بابر اعوان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی بریت کی درخواست جمع کرائی گئی تھی۔

مزیدپڑھیں: عمران خان نے انسداد دہشت گردی عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کردیا

دوران سماعت حکومتی وکیل چوہدری شفقت نے بریت سے متعلق درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور موقف اپنایا کہ ’مذکورہ کیس میں عمران خان کی بریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ کیس سیاسی بنیاد پر بنایا گیا اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ عدالت کا وقت ضائع ہوگیا۔

واضح رہے کہ پولیس نے 2014 کے دھرنے کے دوران تشدد کو بھڑکانے پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور پارٹی کے رہنماؤں سمیت ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود اور راجا خرم نواز کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی درخواست کی تھی۔

اس معاملے پر استغاثہ نے بتایا تھا کہ 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان،ایران کا انسداد دہشت گردی کیلئے قریبی انٹیلی جنس تعاون پر اتفاق

استغاثہ نے کہا تھا کہ احتجاج پُرامن نہیں تھا اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے 3 سال بعد ضمانت طلب کی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد وزیر اعظم عمران کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے 5 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ 2014 میں اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئی تھیں۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔

خیال رہے کہ 14 نومبر 2017 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو تشدد کیس سمیت 4 مقدمات میں ضمانت منظور کی تھی۔

بعد ازاں کیس کی ایک سماعت کے دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کو پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سمیت 4 مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں