'پاکستان مخالف نعرے'، سندھ یونیورسٹی کے 17 طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2019
تعیزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز
تعیزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز

جامشورو پولیس نے مبینہ طور پر پاکستان مخالف نعرہ لگانے اور ریاست کے خلاف وال چاکنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں سندھ یونیورسٹی کے 17 طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا۔

یونیورسٹی کیمپس کے سیکیورٹی سربراہ انسپکٹر غلام قادر پنھور کی شکایت پر طلبہ کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120 اے (مجرمانہ سازش کی تعریف)، دفعہ 120 بی (مجرمانہ سازش کے لیے سزا)، دفعہ 123 اے (ریاست کے قیام کی مذمت اور اس کی خودمختاری کے خاتمے کی حمایت)، دفعہ 124 (کسی قانونی طاقت کو مجبور کرنے یا اسے روکنے کے مقصد سے صدر، گورنر وغیرہ پر حملہ کرنا) اور دفعہ 153 (فساد برپا کرنے کے مقصد سے اشتعال انگیزی کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے جن طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ان میں ایاز حسین کھوسو، فراز احمد چانڈیو، انصار علی بریرو، راشد علی زرداری، نادر علی لاکھیر، عمید علی شاہ، لکھمیر زرداری، سیف اللہ، سلامت زونر، یوسف جتوئی، دانش ناگراج، زیب جتوئی، ہالار اور 4 نامعلوم طلبہ شامل ہیں۔

واقعہ کی درج کردہ ایف آئی آر—فوٹو: محمد حسین خان
واقعہ کی درج کردہ ایف آئی آر—فوٹو: محمد حسین خان

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ 31 اکتوبر کو ہاسٹل انچارج قمر لاشاری، نیاز بلید اور منتظم شاہاب احمد سومرو نے انہیں بتایا کہ جئے سندھ گروپ کے تقریباً 17 سے 18 طلبہ پاکستان مخالف نعرے لگا رہے تھے، ساتھ ہی وہ حکومت کے خلاف نعروں اور لڑکوں کے ہاسٹل کے مرکزی دروازے کے باہر وال چاکنگ میں بھی ملوث تھے۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان مخالف صحافیوں کو گرفتار کرو‘، ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ

انسپکٹر غلام قادر پنھور کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ طلبہ ادارے میں لاقانونیت پیدا کر رہے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اطلاع ملنے کے بعد وہ موقع پر پہنچے اور دیکھا کہ طلبہ جئے سندھ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں، پاکستان مخالف نعرے لگا رہے تھے اور وہ ریاست مخالف وال چاکنگ میں مصروف تھے۔

غلام قادر کے مطابق پولیس کو دیکھنے کے بعد طلبہ ہاسٹل کی جانب چلے گئے لیکن وہ اس دوران 'سندھو دیش، ناکھپے نا کھپے پاکستان، ہم توڑے گے پاکستان' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ وہ خود سے اور ہاسٹل کے انچارج نے اس سب میں ملوث طلبہ کی واضح طور شناخت کی۔

طلبہ نے بغاوت کے الزامات مسترد کردیے

دوسری جانب طلبہ نے اپنے خلاف ان الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ ہاسٹل میں پانی کی قلت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے، ساتھ ہی انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا کہ وہ جئے سندھ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور پاکستان مخالف نعرے یا ریاست کے خلاف وال چاکنگ کر رہے تھے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے سیمسٹر امتحانات 2 دسمبر سے ہونے والے ہیں اور ان کے خلاف اس طرح کے کیسز سے انتظامیہ انہیں ہراساں کر رہی اور ان کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریاست مخالف تقریر کا الزام: مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف دائر درخواست خارج

انہوں نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے اور انہیں یقین نہیں ہے کہ عدالتوں سے انہیں انصاف ملے گا۔

انتظامیہ نے ایف آئی آر سے پہلے مشاورت نہیں کی، وائس چانسلر

علاوہ ازیں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت نے ڈان کو بتایا کہ سندھ یونیورسٹی انتظامیہ نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے سے پہلے ان سے مشاورت نہیں کی۔

ڈاکٹر فتح محمد برفت کا کہنا تھا کہ 31 اکتوبر کو متعلقہ طلبہ نے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان مخالف نعرے اور جیے سندھ کے جھنڈے نہیں اٹھائے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پولیس سے بات کریں گے اور اس حوالے سے معلوم کریں گے کہ ایف آئی آر کیسے درج ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں