وعدے کے باوجود پاکستان مزدوروں کے حقوق میں بہتری لانے میں ناکام

اپ ڈیٹ 21 نومبر 2019
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں —فائل فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان یورپی یونین کی جانب سے فراہم کردہ جی ایس پی پلس کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود انسانی حقوق اور مزدوروں کے حالات بہتر بنانے میں ناکامی سے دوچار ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے زیر اہتمام جی ایس پی پلس کے بارے میں قومی سطح کے اسٹیک ہولڈرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر آنڈرولا کمینہارا نے کہا کہ پاکستان اس سہولت سے لطف اندوز ہونے والے دنیا کے 8 ممالک میں شامل ہے۔

مزیدپڑھیں: 'ایک فیصد پاکستانی مزدور لیبر یونین سے منسلک'

انہوں نے بتایا کہ پاکستان 2014 میں جی ایس پی پلس اسکیم میں داخل ہوا، جس کے نتیجے میں یورپی ممالک کے لیے برآمدات میں 50 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا اور اس حوالے سے ٹیکسٹائل کا شعبہ بنیادی فائدہ اٹھانے والوں میں رہا۔

یورپی یونین کی سفیر آنڈرولا کمینہارا نے کہا کہ تاہم پاکستان میں مزدور اور انسانی حقوق کی صورتحال میں بہت زیادہ بہتری نہیں آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 3 لاکھ سے زیادہ افراد اب بھی ’جدید غلامی‘ میں زندگی گزار رہے ہیں اور 2 لاکھ سے زیادہ بچے بطور بچہ مزدور کام کر رہے ہیں، اسی طرح کارکنوں کی یونین کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ مزدور ، صدر و وزیراعظم کا اظہار یکجہتی

یورپی یونین کی سفیر کا کہنا تھا کہ جی ایس پی پلس کے مطالبات پر عمل پیرا ہونے کے لیے کاروباری یونینز کے کردار کو تسلیم کرنا ہوگا اور یقین دہانی کروانی ہوگی کہ اس میں کوئی پسپائی نہیں ہوگی تاکہ یورپی یونین پاکستان کی حمایت جاری رکھے۔

واضح رہے کہ جی ایس پی پلس اسکیم 2023 تک فعال ہے۔

اس موقع پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنٹری ڈائریکٹر انگریڈ کرسٹینسن نے کہا کہ پاکستان میں کئی برس سے چلڈرن لیبر سروے نہیں کرایا گیا جبکہ پاکستان میں بچوں میں مزدوری کا آخری سروے 1996 میں کرایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایل او اس معاملے پر حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بچوں کی مزدوری بہت سخت ہے کیونکہ ہم نے ہر جگہ یہ دیکھا ہے کہ بچے سڑکوں پر پھول اور کتابیں بیچ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ میں مزدور کی تنخواہ 16 ہزار 200 روپے مقرر

علاوہ ازیں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ٹریڈ یونینز کو رجسٹریشن میں مداخلت کا سامنا ہے اور نگرانی کا فقدان ہے۔

آئی ایل او کے کنٹری سربراہ نے تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اجتماعی سودے بازی (سی بی اے) اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کا فقدان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مزدوروں سے متعلق قوانین کا نفاذ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں بعض حلقوں میں لیبر انسپکشن کو ختم کردیا گیا تاہم متعلقہ صوبوں کو مذکورہ فیصلے کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔


یہ خبر 21 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں