ہمیں تو اب ایسا لگنے لگا ہے کہ اس سماج میں صرف 2 طرح کے ہی لوگ پائے جاتے ہیں، ایک تو وہ جو ویڈیو بنا رہے ہیں اور دوسرے وہ جو ویڈیو دیکھ رہے ہیں، اور ان دونوں کے درمیان ہم جیسے کاغذ قلم لیے یہ معمے سلجھانے والے ہی باقی بچتے ہیں۔

اگر شیکسپیر نے آج کا یہ زمانہ دیکھا ہوتا، تو شاید وہ دنیا کو ایک مَنچ (اسٹیج) کے بجائے ایک ویڈیو سے تعبیر کرتا کہ جس میں ہم سب لوگ اپنے اپنے ’کردار‘ ادا کر رہے ہیں۔

انتہا تو یہ ہے کہ اب بہت سی خبریں بھی انہی پھیل جانے والی ’ویڈیو‘ کی وجہ سے نکل کر آتی ہیں۔ جناب، ہماری مراد صرف ’لیک‘ ہونے والی یا لیک کی جانے والی ویڈیو سے نہیں ہے کہ اس کے ’متاثرین‘ کی بھی ایک طویل فہرست ہے، بلکہ اب تو یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ ’اُن‘ کے پاس سب ہی کی ’ویڈیوز‘ ہیں، بس یہ وقت طے کرتا ہے کہ کب کس کی ویڈیو ’جاری‘ کرنی ہے!

خیر، تو ہم کہہ رہے تھے کہ آج کل اگر کوئی اچھوتی خبر بنا ویڈیو کے آجائے، تو یار لوگ سب سے پہلے اس کی ویڈیو دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی نے کوئی تماشا لگا دیا، تھپڑ مار دیا، جوتا کھینچ مارا، زبان درازی کردی یا اور کچھ ایسی حرکت کردی، جسے ہم کہنے سے بھی ہچکچا رہے ہوں، لیکن اس کی ویڈیو ضرور میسر ہوجائے گی، حتیٰ کہ بم دھماکے اور مختلف حادثوں کی ویڈیو بھی بہت تیزی سے ’سرائیت‘ کرتی ہیں۔

پہلے ہم کسی بڑے آدمی یا مشہور شخصیت سے ملتے تھے، تو یادگار کے طور پر اس کے دستخط لے کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے تھے، اگر کبھی موقع ہوتا تو اس کے ساتھ تصویر بھی بن جاتی تھی، جسے پھر موبائل یا کمپیوٹر کے بجائے باقاعدہ مجسم صورت میں اپنے پاس محفوظ رکھا جاتا، لیکن اب تو ہر ہاتھ میں کیمرا (موبائل) ہونے سے ’سیلفی‘ (خود کَشی) اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ویڈیو کا دور دورہ ہے۔

چلتے پھرتے آپ کو کہیں بھی کوئی ’تماشا‘ دکھائی دے جائے تو اسے دیکھ کر کہیں لکھنے کے بجائے فوراً اپنی جیب سے موبائل نکال کر اس منظر کو ہی ’ویڈیو‘ کرڈالیے اور پھر ساری جنتا کی داد وصول کیجیے۔

اب تو صورتحال یہ ہے کہ اچھی خاصی تحریریں لکھنے والے صحافی اور دانشور بھی اسے کارگر نسخہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ نہ صرف لفظ بولیں بلکہ خود بھی دکھائی دیں، گویا ’قاری‘ سے زیادہ اب ’سامع‘ اور ’ناظر‘ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

جدید ’ڈیجیٹل میڈیا‘ میں اب لکھی ہوئی تحریر سے زیادہ بولی اور ’دکھائی‘ جانے والی ’تحریر‘ کا چرچا ہے، تب ہی ’بلاگ‘ کے بعد اب ’وی لاگ‘ یعنی ویڈیو لاگ کا شور اُٹھا ہوا ہے۔

ہم نے جس زمانے میں ہوش سنبھالا تب ’ویڈیو‘ سے مراد ویڈیو فلموں کی کیسٹ سے لی جاتی تھی۔ اسی مناسبت سے گلی محلّوں میں ویڈیو والے اور ان کی ویڈیو کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ باقی شادی بیاہ کی ’عکس بینی‘ کے واسطے ویڈیو سے زیادہ ’مووی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ تقاریب کے دوران ’مووی والا‘ بہت بھاری بھرکم کیمرا کاندھے پر رکھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا تھا، کیمرے سے منسلک ایک لمبا سا تار سنبھالنے کے لیے خاص طور پر ایک اضافی بندہ موجود ہوتا تھا، جو مووی والے کے ساتھ ساتھ چلتا اور کبھی تار کھولتا تو کبھی لپیٹتا۔

مگر اب تو بھاری کیمروں اور لمبی تاروں کا کوئی جھنجھٹ ہی نہیں، جیب میں پڑے موبائل کو جب چاہیں نکال لیجیے اور جہاں چاہے دھڑلے سے عکس بندی شروع کردیجیے، نہ روک نہ ٹوک۔ ٹریفک پولیس اہلکار رشوت لے رہا ہے، غلط چالان کر رہا ہے، سڑکوں اور گلیوں میں کوئی لڑ رہا ہے، دھمکیاں دے رہا ہے، بدمعاشی کر رہا ہے یا پھر چوری اور راہزنی ہو رہی ہے، کوئی انہونی رونما ہو رہی ہے، جھٹ پٹ موبائل نکل آتا ہے اور یہ مناظر موبائل کی میموری میں محفوظ کرلیجیے جاتے ہیں!

بہت سے واقعات کے حوالے سے ہم بنا سوچے سمجھے ویڈیو کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں اور اپنا فیصلہ صادر کردیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ ویڈیو شروع ہونے سے پہلے بھی تو کچھ ہوا ہوگا، ویڈیو کے ذریعے دکھائے یا سنائے گئے ’حقائق‘ کے علاوہ دیگر امکانات یا خدشات پر بھی غور کیا کریں، اس کے بعد ہی اپنی رائے کے لیے لب کشائی کیجیے۔

ہر بار صرف ویڈیو کی بنیاد پر ہی کوئی بات طے نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یار لوگوں نے اس وسیلے کو مشکوک بھی بنایا ہے اور اس کا غلط استعمال بھی سامنے آیا ہے۔

پھر بنیادی حقوق کے لحاظ سے آپ ہر ایک کی ویڈیو نہیں بناسکتے۔ مگر اب کیا کیجیے گا کہ جب سے ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ کا ’جِن‘ بوتل سے باہر آیا ہے تب سے انٹرنیٹ کی سہولت رکھنے والا تقریباً ہر فرد ہی خود کو ’صحافی‘ سمجھ بیٹھا ہے، سو بھلا انہیں کیا سمجھایا جائے کہ ’صحافتی اخلاقیات‘ کیا ہوتی ہیں۔

بس ’خبطِ عظمت‘ کا سودا ہر ایرے غیرے کے دماغ میں سمایا ہے، کسی طرح سے میری ویڈیو دنیا بھر میں پھیل جائے، میری ’میں، میں‘ دنیا بھر میں ہر سوں ’کائیں، کائیں‘ کی طرح گونجنے لگے۔

اب تو ویڈیو کے ’چینل‘ اور ’ویب سائٹ‘ بنانے کا بخار بھی اپنے جوبن پر ہے، ہر آدمی چاہتا ہے کہ بس کسی طرح اسے زیادہ سے زیادہ ’کِلکس‘ ملیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے ’چینل‘ کو ’سبسکرائب ‘ کریں تاکہ پھر اس توسط سے کچھ نہ کچھ روپے چھلک چھلک کر ہماری آمدن میں اضافہ کرسکیں۔

حد تو یہ ہے کہ مذہبی مسائل پر مبنی ویڈیو کے شروع میں بھی ’مبلغ‘ کی پہلی ’تبلیغ‘ یہی ہوتی ہے کہ پہلے چینل سبسکرائب کریں اور گھنٹی کا نشان بھی دبا دیں (تاکہ دنیا کا بھی کچھ آسرا رہے!)

جدید موبائل پر دستیاب ’سہولیات‘ سے مختلف مکالموں اور گانوں پر اداکاری کا ماجرا دیکھیے تو ہمارے نوجوان اپنا قیمتی وقت اسی کی نذر کر رہے ہیں، ارے نوجوانو ’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ’ویڈیو‘ کے سوا۔‘

کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ یا حادثہ ہو، اس کی ویڈیو کی توقع ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے ہر جگہ ہر وقت ہی کیمرے لگے ہوئے ہوں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ پہلے کسی کا جھگڑا ہوتا تو لوگ بیچ بچاؤ کراتے تھے مگر اب ویڈیو بناتے ہیں، سمندری طوفان سے لے کر سیلاب یا آتشزدگی، کہیں کوئی ہنگامی صورتحال ہی کیوں نہ ہو، لوگ مدد کرنے کے بجائے ویڈیو بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں، اس لیے اب بہت سی جگہوں پر یہ تنبیہہ لکھی جانے لگی ہے کہ ہنگامی صورت میں ویڈیو بنانے کے بجائے محفوظ راستوں سے باہر نکلیے۔

حتیٰ کہ گزشتہ ماہ رحیم یار خان میں ’تیز گام‘ ٹرین حادثے کے موقع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بوگیوں میں لوگ جلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن مدد کرنے کے بجائے ان کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔

ویڈیو کے ذیل میں ہمارے لیے یہ بات بھی قابلِ غور ہونی چاہیے کہ ہم اپنی یادگار تقاریب اور خوشیوں بھرے لمحات وغیرہ کو محفوظ کرنے کے لیے ان کی ویڈیو تو بنا رہے ہوتے ہیں لیکن کبھی یہ سوچا ہے کہ وہ بیت جانے والا وقت تو یادگار ہوجاتا ہے، لیکن وہ یادگار لمحے آپ اصل میں خود نہیں جی پاتے! کیونکہ اپنی زندگی کا یہ قیمتی وقت آپ اپنے کیمرے کی نذر جو کردیتے ہیں۔

کبھی دل کی کسوٹی پر اس ’محرومی‘ کو بھی محسوس کرنے کی کوشش کیجیے گا، ورنہ اب تو شاید ’ایک ویڈیو پر ہے موقوف زندگی ہماری۔‘ شاید ہم غیر محسوس طریقے سے جدید مشینوں کا ساتھ دینے کے چکر میں اپنے لطیف احساسات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں