ہائی کورٹ جج کو پولیس افسر کی 'بے عزتی' پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2019
چیف جسٹس لاہور میں تقریب سے خطاب کررہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز
چیف جسٹس لاہور میں تقریب سے خطاب کررہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پولیس اصلاحات کمیٹی کے اقدامات کو موثر اور کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہائی کورٹ کے سینئر جج کو عدالت میں پولیس افسر کی بے عزتی کے الزام پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

لاہور میں پولیس اصلاحات کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘چیف جسٹس کی حیثیت سے میں نے پولیس اصلاحات کے علاوہ کئی اقدامات شروع کیے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی لائی اور فوری اور تیز انصاف کے لیے ماڈل کورٹس متعارف کرائے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘میری پہلی ترجیح یہ تھی کہ جو عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں کی عزت کا بحال کرنا تھا، پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر میں نے ذاتی طور پر چند واقعات دیکھا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے افسران کو عزت نہیں دی جاتی اور بعض اوقات ناقابل برداشت ہوجاتی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:طاقتور کا طعنہ نہ دیں،'کسی' کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، چیف جسٹس

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘کسی بھی شخص کی عدالت میں پیشی پراس کا احترام ملحوظ خاطررکھاجائے، آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بنیادی حقوق کو مسخ نہیں کیا جاسکتا ہے’۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ‘سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک سینئر ترین جج کو صرف اس الزام پر سماعت کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے عدالتی کارروائی کے دوران پولیس افسر سے بدسلوکی اور بے عزتی کی ہے’۔

قابل احترام سنیئرز کا جوڈیشل ایکٹویزم'

چیف جسٹس نے ‘جب میں چیف جسٹس بنا تو ملک میں کوئی واقعہ پیش آتا تھا تو آوازیں آتی تھیں کہ چیف جسٹس از خود نوٹس لے لیکن مجھے احساس ہوا میرے چند نہایت قابل احترام سینئرز کی جوڈیشل ایکٹویزم پر ادارے بھی دباؤ میں آئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر افسران قابل اور مستعد ہیں اور وہ موقع کی مناسبت سے کام کررہے ہوں تو پھر عدالت کو کودنے کی ضرورت نہیں ہے، ایک وقت میں جب رات کو کوئی واقعہ ہوتا تھا تو عدالت نوٹس لیتی تھی اور صبح افسران جائے وقوع کی طرف جانے کے بجائے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لیے اسلام آباد کی طرف دوڑتے تھے’۔

مزید پڑھیں:اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘میرے خیال میں یہ بات درست نہیں تھی، اگر عہدیداران عمل نہیں کررہے ہیں اور اقدامات نہیں کررہے ہوں تو کسی کو مداخلت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عدالت کی مداخلت کا جواز پیدا ہوتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آخری عدالت ہے اس لیے پہلی عدالت نہیں ہونی چاہیے۔

پولیس اصلاحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصلاحات کی بدولت عدالتوں میں اپیلیں دائرہونےمیں 15فیصدکمی آئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلی ترجیح رہی ہے کہ عدالت بطور عدالت ہی کام کرے، مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے ماڈل کورٹس قائم کیں اور ریٹائرڈ افسران نےبھی پولیس اصلاحات کمیٹی میں اہم کردار ادا کیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پولیس اصلاحات کمیٹی میں ہم نے کئی اقدامات کیے اور ملک بھر میں ایس پی شکایات سینٹر ہر ضلعے میں قائم کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں ہمیں بتایا گیا کہ ‘پولیس شکایات سیل میں ایک لاکھ 20 ہزار شکایات نمٹائی گئیں جن میں سے 95 فیصد افراد مطمئن تھے اور وہ کسی عدالت میں نہیں گئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ان اقدامات کے نتیجے میں ایک لاکھ مزید کیسز جو عدالت میں آسکتے تھے نہیں آئے کیونکہ متاثرین کی مناسب فورم پر داد رسی کی گئی جو عوام کی خدمات کا بہترین نتیجہ ہے’۔

'ماڈل کورٹس کے ناقابل یقین نتائج'

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘اس مختصر وقت میں ہائی کورٹ میں مقدمات دائر ہونے کی شرح 15 فیصد اور ضلعی عدالتوں میں شکایات کے اندراج یا مقدمات میں 30 فیصد کمی آئی ہےجو ایک بڑی کامیابی ہے’۔

ماڈل کورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے عدالتوں کا بوجھ کم کردیا ہے کہ عدالتوں کو حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے لیے وقت ملا۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اہم ملاقات

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل نے اصلاحات کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں ہمیں بتایا تھا کہ جرائم کی شرح میں کمی شروع ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کے ہر ضلعے میں ماڈل کورٹس قائم کیا جہاں ابتدائی طور پر قتل اور نارکوٹکس کے مقدمات کا ٹرائل شروع کیا اور نتائج ناقابل یقین تھے کیونکہ ہم نے صرف ایک انتظامی قدم سے اسی قانون، جج اور وکلا کی موجودگی میں کامیابی حاصل کی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘ماڈل کورٹس نے گزشتہ 189 دنوں میں 24 ہزار 523 قتل اور نارکوٹکس کے مقدمات کا فیصلہ کیا جو ناقابل یقین ہے، گزشتہ 106 دنوں میں مجسٹریٹ ماڈل عدالتوں نے 27 ہزار 469 ٹرائل کو مکمل کیا جو ہمارے ججوں کی صلاحیت اور پولیس کے مکمل تعاون سے ممکن ہوا’۔

جھوٹی گواہی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جھوٹ پر مبنی انصاف ہوتو یہ انصاف نہیں ہے اگر کسی میں گواہی دینے کی ہمت نہیں ہے تو پھر انصاف نہ مانگے۔

'ہمارا کام قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے'

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہمارا کام انصاف کرنا نہیں ہے، ہمارا کام ہے انصاف کرنا قانون کے مطابق یہ حلف ہے، آئین میں لکھا ہے کہ میں قانون کے مطابق انصاف کروں گا، چاہے مجھے نظربھی آرہا ہے کہ اس نے قتل کیا مگر قانون میں ثابت نہیں ہوتا یہ میری ڈیوٹی ہے کہ اس کو بری کروں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اللہ تعالیٰ کا نظام بھی یہی ہے، اللہ تعالیٰ کہتے ہیں چار گواہ لیتے ہیں اور اگلا فقرہ ہے کہ اگر 4 گواہ نہیں لاسکتے ہو تو تم جھوٹے ہو، یہ اللہ کا نظام ہے اور گواہی کا ایک معیار مقرر کردیا گیا ہے اورگواہی اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو سزا نہیں ہوسکتی’۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘ہم نے 70 برس ضائع کیے، 1951 میں ہم نے کہا جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اب 2019 میں ہم نے کہہ دیا کہ جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے’۔

تفتیشی افسر پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ‘تفتیشی افسر کا یہ کام نہیں ہے کہ مدعی نے ایف آئی آر میں جو لکھوا دیا ہے اس کو صحیح ثابت کرے’۔

تبصرے (0) بند ہیں