پرویز مشرف کو غدار کہنا ظلم ہے، وزیر داخلہ

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2019
وفاقی وزیر داخلہ نے پروگرام نیوز آئی کو انٹرویو دیا—فوٹو:ڈان نیوز
وفاقی وزیر داخلہ نے پروگرام نیوز آئی کو انٹرویو دیا—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ بیماروں کی طرح باہر جاتے تو کوئی نہیں پوچھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج تب آتی ہے جب خلا پیدا ہوتا ہے اور اس خلا کو پُر کیا جاتا ہے، اسی طرح پرویز مشرف کو غدار کہنا ظلم ہے، مجھے اس پر اعتراض ہے، ہاں انہیں آئین شکن کہا جا سکتا ہے’۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ 'نواز شریف ہیں تو بیمار مگر کچھ تو ہوا ہے'۔

اعجاز شاہ نے کہا کہ اگر وہ بیماروں کی طرح باہر جاتے تو کسی نے نہیں پوچھنا تھا، کسی وہیل چیئر یا کرسی پر بیٹھے ہوتے تو اس طرح تنقید نہ ہوتی جس طرح اب ہو رہی ہے، میڈیکل رپورٹ اور حقیقت میں کہیں نہ کہیں تو فرق ہے، میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘نواز شریف کے بیرون ملک جانے میں ایسا تاثر ملتا ہے کہ کچھ ہوا ہے، اگر میری ذمہ داری لگائی جاتی تو میں اس سارے معاملے کی تہہ تک جاتا اور حقائق سامنے لاتا کہ ہوا کیا ہے، یہ کوئی ایٹم بم تو نہیں بنا رہے’۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے کی وجہ سے قومی احتساب بیورو (نیب) نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے سے ہچکچا رہا تھا لیکن اصل مسئلہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ہینڈل کرنے کے بعد پیدا ہوا’۔

مزید پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ: حکومت کی شرط مسترد، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے 7 ارب روپے کا بانڈ جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی جس کے خلاف شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے اس معاملے کو سلجھایا تھا اور نواز شریف کو ان کے بھائی شہباز شریف کے تحریری حلف نامے پر ایک مرتبہ ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔

نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کس نے دی؟

اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد دی گئی۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ نیب درخواست کے بعد کیا جاتا ہے۔

کابینہ کے زیادہ تر اراکین کی جانب سے نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی مخالفت کے وزیر اعظم عمران خان کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ میں زیادہ تر کی رائے یہ تھی کہ نواز شریف کو باہر جانے دیا جائے کیونکہ تحریک انصاف میں زیادہ ہی جمہوریت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ کابینہ میں اکثریت کی رائے تھی کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جائے لیکن انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت دی۔

'مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت کے خلاف ہوں'

اعجاز شاہ نے ایک سوال پر کہا کہ 'اللہ نواز شریف کو صحت دے اور وہ واپس آئیں لیکن اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو ہم عدالت جائیں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:وزارت داخلہ نے نواز شریف کو ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ واپس نہیں آتے تو اشتہاری ہو جائیں گے اور انہیں لایا جائے گا کیونکہ یہاں مقدمات چل رہے ہیں’۔

مریم نواز کے بیرون ملک جانے کی افواہوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم بھی سن رہے ہیں کہ لوگ مریم نواز کے باہر جانے کی باتیں کر رہے ہیں مگر میں بیرون ملک جانے دینے کی اجازت کے خلاف ہوں گا، کیا نواز شریف کے اور بچے نہیں ہیں جو ان کی خدمت کر سکیں’۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کو لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں چوہدری شوگر ملز کے حوالے سے نیب کی حراست سے ضمانت پر رہا کردیا تھا تاہم ان کا پاسپورٹ عدالت میں جمع کرادیا گیا تھا۔

'آصف علی زرداری کے ساتھ بھی یہی رویہ ہونا چاہیے'

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘آصف علی زرداری کے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ ہونا چاہیے جیسا نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے اور اگر میڈیکل بورڈ ہمیں لکھ کر دے کہ زرداری صاحب کا علاج ملک میں نہیں ہو سکتا ہے تو انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینی چاہیے کیونکہ اب تو نواز شریف کی مثال موجود ہے’۔

سابق صدر کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘جعلی اکاؤنٹس کیس سے بہت کچھ نکلے گا اور اب تو لوگوں نے پیسے بھی دینے شروع کر دیے ہیں، ویسے بھی وائٹ کالر کرائم کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے’۔

مزید پڑھیں:جعلی اکاؤنٹ کیس: نیب کا آصف علی زرداری و دیگر کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین کو نیب نے رواں برس جعلی اکاؤئنٹس کیس میں تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا اور اسی دوران ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں پمز اسلام آباد میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ زیر علاج ہیں۔

پی پی پی کی جانب سے سابق صدر کو ذاتی معالج تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کے حوالے سے کوئی درخواست یا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔

آصف علی زرداری نے اپنے مقدمات کو اسلام آباد سے کراچی منتقل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس کو مسترد کیا جا چکا ہے۔

'مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کا خاتمہ جھوٹ کی کنجی'

اعجاز شاہ نے حکومت اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان کامیاب مذاکرات کو جھوٹ کی کنجی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘صلح کروانے والا نوے فیصد جھوٹ بولتا ہے، ہر کوئی آپس میں دو نمبر باتیں کر رہے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں:آصف زرداری سے پلی بارگین شروع ہوگئی، شیخ رشید کا انکشاف

مولانا فضل الرحمٰن کس ضمانت کے تحت دھرنا ختم کر کے گئے، اس پر انہوں نے کہا کہ ‘چوہدریوں نے مولانا کو امانت کا کہا ہو گا کہ یہاں کچھ نہیں ملنا’۔

'فوج تب آتی ہے جب خلا پیدا ہوتا ہے'

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے حوالے سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ ‘فوج تب آتی ہے جب خلا پیدا ہوتا ہے اور اس خلا کو پُر کیا جاتا ہے، اسی طرح پرویز مشرف کو غدار کہنا ظلم ہے، مجھے اس پر اعتراض ہے، ہاں انہیں آئین شکن کہا جا سکتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘پرویز مشرف سے زیادہ اس وقت کوئی بیمار نہیں اور ان کے خلاف کیس صحت یابی تک موخر کر دینا چاہیے’۔

اعجاز شاہ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے عدالتوں نے نکالا اور اگر کوئی پرویز مشرف کو دیکھنے جاتا ہے تو میں سہولت دوں گا اور اس کو میں خود لے کر جاؤں گا’۔

مزید پڑھیں:سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کے لئے حکومت کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

انہوں نے کہا کہ ‘پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 تحت مقدمہ بنانے کی منظوری تو نواز شریف نے کابینہ سے بھی نہیں لی تھی’۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے کہ وہ مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ ان کی صحت یابی تک ملتوی کردیا جائے۔

حکومت نے درخواست میں کہا ہے کہ 'حکومت کو موقع ملنے اور نئی استغاثہ ٹیم کو مقرر کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے'۔

وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ 'سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، استغاثہ کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو بغیر اختیار کے مقدمے کی پیروی کی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں:سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی درخواست پر وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم

حکومت کا کہنا تھا کہ 'کیس میں استغاثہ نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا کوئی اختیار نہیں تھا، خصوصی عدالت نے نئی استغاثہ ٹیم کو نوٹی فائی کرنے کا موقع دیے بغیر حتمی فیصلے کی تاریخ مقرر کر دی'۔

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 19 نومبر کو پرویز مشرف کے وکلا کو 26 نومبر پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے فیصلے کو 28 نومبر تک محفوظ کرلیا تھا۔

بعد ازاں 23 نومبر کو پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کے حکم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جہاں عدالت نے اس کے قابل سماعت ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں