سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2019
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا — فائل فوٹو/اے ایف پی
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا — فائل فوٹو/اے ایف پی

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے محفوظ شدہ فیصلے کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ 'حکومت کو موقع ملنے اور نئی استغاثہ ٹیم کو تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، استغاثہ کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو بغیر اختیار کے مقدمے کی پیروی کی گئی'۔

حکومت کا کہنا تھا کہ 'کیس میں استغاثہ نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا اسے اختیار نہ تھا، خصوصی عدالت نے نئی استغاثہ ٹیم کو نوٹی فائی کرنے کا موقع دیے بغیر حتمی فیصلے کی تاریخ مقرر کر دی'۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی درخواست پر وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم

درخواست میں کہا گیا کہ 'وفاقی حکومت کو استغاثہ کو تبدیل کرنے کا اختیار ہے، خصوصی عدالت کا سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا 19 نومبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے'۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ عبوری ریلیف کے طور پر خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔

وزارت داخلہ نے موقف اپنایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی شکایت مجاز فرد کی جانب سے داخل کرائی گئی تھی، اس معاملے کو بھی قانون کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے استدعا کی کہ 'پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: مشرف نے فیصلہ محفوظ کرنے کا اقدام لاہورہائیکورٹ میں چینلج کردیا

خیال رہے کہ 19 نومبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر تک کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔

23 نومبر کو پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سابق صدر کی جانب سے ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

خواجہ طارق رحیم کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔

انہوں نے درخواست میں نشاندہی کی تھی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہیں اور اسی وجہ سے خصوصی عدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کرسکے تھے۔

علاوہ ازیں درخواست میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔

آج لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے اقدام کے خلاف دائر درخواست کو قابل سماعت ہونے سے متعلق وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم دیا۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو ان 2 نکات پر دلائل پیش کرنے کا حکم دیا کہ جب سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف کیس زیر سماعت ہے تو لاہور ہائی کورٹ اس کیس کو کیسے سن سکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ پرویز مشرف اسلام آباد کے رہائشی ہیں تو لاہور ہائی کورٹ میں ان کی درخواست کیسے قابل سماعت ہے؟

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد رواں سال یہ معاملہ خصوصی عدالت میں زیرسماعت آیا تھا، جہاں 8 اکتوبر کو اس کیس کی 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم کیس میں اہم موڑ تب آیا تھا جب 25 اکتوبر کو موجودہ حکومت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے میں سرکاری پراسیکیوٹر (استغاثہ) کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا کیونکہ یہ ٹیم مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں بنائی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں