اسلام آباد ہائی کورٹ: العزیزیہ ریفرنس اپیلوں کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا طبی بنیادوں پر معطل کردی تھی—فائل/فوٹو:ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا طبی بنیادوں پر معطل کردی تھی—فائل/فوٹو:ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس کی سماعت میں حاضری سے استثیٰ دے دیا اور بینچ میں تبدیلی کا عندیہ دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے جج ویڈیو اسکینڈل اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی جانب سے دائر اپیلوں پر سماعت کی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست صرف آج کے لیے منظور کی جاتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جج وڈیو کیس سے متعلق پانچ افراد کو عدالتی گواہ کے طور پر طلب کرنے کی استدعا کی تھی۔

مزید پڑھیں:العزیزیہ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور کرلی

نواز شریف نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ گواہوں کا عدالت یا پھر پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بیان قلم بند کیا جائے اور ناصر بٹ کا بطور گواہ بیان ریکارڈ کیا جائے۔

انہوں نے اپیل کی ہے کہ آڈیو کا فرانزک کرنے والے برطانوی ماہر کا بطور عدالتی گواہ بیان ریکارڈ کیا جائے اور وڈیو ریکارڈنگ کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فون کے فرانزک ماہر کو بھی طلب کیا جائے۔

عدالت سے استدعا میں انہوں نے کہا ہے کہ گواہوں کے بیانات مرکزی اپیل پر انصاف پر مبنی فیصلے کے لیے ضروری ہیں۔

سابق وزیراعظم کا موقف ہے کہ شفاف اور آزادانہ ٹرائل میرا بنیادی حق ہے، احتساب عدالت کے جج نے اپنا دامن داغدار ہونے کے حوالے سے خود اعتراف کیا اور سپریم کورٹ نے بھی جس جج کے کنڈکٹ پر سوال اٹھائے ہوں تو اس سے شفاف ٹرائل کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔

نواز شریف کی اپیل پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے جواب جمع کرادیا۔

یہ بھی پڑھیں:العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری

نیب نے اپنے جواب میں نواز شریف کی جانب سے 5 افراد کو عدالتی گواہ بنانے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پانچوں افراد کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

عدالت کو اپنے جواب میں نیب نے کہا کہ اضافی شواہد پیش کرنے کی کوئی نظیر نہیں اور فرانزک ماہرین کا یہاں زیر التوا معاملے سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور نہ ہی ناصر بٹ اس مقدمے میں فریق ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نصر بھٹہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ نیب کا جواب دیکھ کر لگتا ہے کہ نیب بالکل ہی پیدل ہو گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی اور جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ممکن ہے کہ دو ہفتے بعد ڈویژن بینچ کی تشکیل تبدیل ہو جائے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کے بعد نیب نے بھی العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ چیلنج کردیا

نواز شریف نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم جولائی 2019 میں مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج کی مبینہ ویڈیو چلائی گئی جس میں وہ دباؤ میں آکر سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دینے کا اعتراف کررہے تھے۔

یہ معاملہ بعد ازاں ہائی کورٹ میں چلا گیا اور احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی اپنا موقف جمع کرایا جس کو کارروائی کا حصہ بنایا گیا اور ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کردی گئیں۔

نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کی سزا لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے، اسی دوران نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کی تحقیقات شروع کردی گئی اور انہیں عدالت سے منظوری کے بعد نیب دفتر منتقل کردیا گیا جہاں ان کی طبیعت بگڑ گئی اور ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطل کردی اور طبی بنیادوں پر ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور اسی طرح کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے بھی دیا گیا اور بالآخر نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں