چھینک ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا، بس سردی، الرجی یا مٹی ناک میں گھستی ہے اور ایک سیکنڈ سے بھی وقت میں ناک کی رطوبت کے پانچ ہزار قطرے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خارج کردیتی ہے۔

یہ خارج ہونے والے ذرات لگ بھگ تیس فٹ تک سفر کرسکتے ہیں اور ہوا میں دس منٹ تک رہ سکتے ہیں جو کہ وہاں سے گزرنے والے کے لیے نزلہ زکام کا خطرہ پیدا کردیتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ انسان چھینک مارتے ہوئے آنکھیں کیوں بند کرلیتا ہے؟

درحقیقت ہمارا جسم اتنی زیادہ تعداد میں جراثیم خارج کرنے پر تو برا نہیں مناتا ہے مگر انہیں دیکھنا اسے بظاہر پسند نہیں۔

تاہم اگر چھینک کے دوران آنکھیں کھلی رکھی جائیں تو کیا ہوگا؟

اس کا جواب واشنگٹن ٹاﺅن شپ میڈیکل فاﺅنڈیشن امریکا کے ماہرین نے دیتے ہوئے بتایا ' جب چھینک آتی ہے تو اس کے لیے آنکھوں کے ارگرد کے حصے کے مسلز حرکت میں آتے ہیں، سننے میں تو اچھا لگے گا مگر اس کی کوئی تک نہیں کہ ہزاروں جراثیموں کو اتنی رفتار سے اپنی ناک سے نکلتے دیکھنا کوئی اچھا نظارہ ثابت ہوگا'۔

اور ہاں آنکھیں کھلی رکھنے پر یہ مواد اس کے اندر بھی ممکنہ طور پر گھس سکتا ہے۔

تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی اس کا کوئی واضح جواب موجود نہیں کہ آخر چھینک کے دوران آنکھیں بند کیوں ہوجاتی ہیں بس ایک خیال ہے کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہمارے جسم کو لگتا ہے کہ اسے دفاع کرنا ہے۔

اور ہاں یہ دفاع کسی اور چیز سے نہیں بلکہ چھینک مارنے کے عمل کے دوران خارج ہونے والی رطوبت سے ہوتی ہے۔

کچھ افراد چھینک کے دوران آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور یہ خیال درست نہیں کہ ایسا کرنے سے آنکھیں نکل کر باہر گر جائیں گی کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔

درحقیقت ایسی ویڈیوز یوٹیوب پر آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں جس میں لوگ آنکھیں کھول کر چھینک مار رہے ہیں ان کو نہ ہی دیکھیں تو بہتر ہوگا کیونکہ یہ کافی دل خراب کردینے والا نظارہ بھی ہوسکتا ہے۔

ویسے ایسے باصلاحیت لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو آنکھیں کھول کر چھینک مار سکیں اور ایسی کوشش نہ ہی کریں تو بہتر ہے تاکہ خود کو اپنے قابل کراہت فعل سے بچاسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں