ایف آئی اے نے بی آر ٹی پشاور میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کردیں

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019
پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی کی تاخیر کے مختلف مراحل سے متعلق 35 نکات اٹھائے تھے — فائل فوٹو: شہباز بٹ
پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی کی تاخیر کے مختلف مراحل سے متعلق 35 نکات اٹھائے تھے — فائل فوٹو: شہباز بٹ

پشاور: خیبرپختونخوا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی 5 رکنی خصوصی انکوائری ٹیم نے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بس ٹرانزٹ سسٹم سے متعلق 3 درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے 14 نومبر کو ایف آئی اے کو نشاندہی کیے گئے 35 نکات کی روشنی میں تحقیقات کرنے اور کوئی قصور وار ہوں تو ان کے خلاف کارروائی کرکے 45 روز میں انکوائری رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر میاں سعید نے ڈان کو بتایا کہ عدالت کے احکامات پر بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا آغاز ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں تفتیش کاروں کی خصوصی ٹیم ان کی نگرانی میں کام کرے گی۔

مزید پڑھیں: بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ ریفرنسز تیار ہیں، چیئرمین نیب

ڈاکٹر میاں سعید نے کہا کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سیل کی تحقیقاتی ٹیم تکنیکی ماہرین تعینات کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جس میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ماہر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 4 رکنی ٹیم نے منصوبے سے متعلق دستاویزات کی فراہمی کے لیے پروجیکٹ کی ایگزیکیوٹنگ ایجنسی، پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سول سیکریٹریٹ کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ، عدالت کی جانب سے بس منصوبے پر اٹھائے گئے 35 نکات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’4 دسمبر کو عدالتی احکامات موصول ہوئے تھے، ہم ابتدائی طور پر پہلے 45 روز کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر توجہ مرکوز کریں گے لیکن بہت سی باریک تفصیلات سے تکنیکی طور پر نمٹنے کی وجہ سے ٹاسک مکمل کرنے میں مقررہ مدت سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے‘۔

گزشتہ ہفتے صوبائی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایف آئی اے کو تحقیقات کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس حوالے سے 6 دسمبر کو صوبائی ایڈووکیٹ جنرل شمائیل احمد بٹ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے 14 نومبر کے فیصلے کے خلاف سول پٹیشن فار لیو ٹو اپیل (سی پی ایل اے) تیار کی تھی اور اسے آئندہ ہفتے دائر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: بی آر ٹی منصوبہ مکمل ہونے کی ایک اور تاریخ سامنے آگئی

انہوں نے کہا تھا کہ ’سی پی ایل اے نے عدالتی بینچ کی جانب سے ازخود نوٹس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے مختلف قانونی نکات پر سوالات اٹھائے تھے‘۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سی پی ایل اے ابھی دائر ہونی تھی لیکن اس کا حتمی تجزیہ ایک روز قبل مکمل کیا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی کی تاخیر کے مختلکف مرحلوں سے متعلق 35 نکات اٹھائے تھے۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ بی آر ٹی پر خطیر رقم خرچ ہوئی تھی جو مختلف شعبوں میں منصوبوں کی تکمیل میں استعمال ہوسکتی تھی جس سے صوبے کا معاشی منظر نامہ تبدیل ہوسکتا تھا، صوبائی حکومت نے صرف ایک شہر میں قرض کی رقم پر توجہ مرکوز کی اور منصوبہ عوام کی زندگیوں میں تبدیلی نہ لاسکا۔

پشاور ہائی کورٹ نے حیرانی کا اظہار کیا تھا کہ 220 بسیں خریدنے کا فیصلہ کس نے کیا جبکہ پنجاب میں طویل بس روٹ کے لیے 65 بسیں استعمال ہورہی ہیں اور منصوبہ ایک برس میں مکمل کیوں نہیں ہوسکا۔

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں