برطانوی انتخابات: کنزرویٹوز پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کرلی

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2019
بورس جانسن کی انتخابی مہم کا محور بریگزٹ کا عمل مکمل کرنا تھا—تصویر: اے ایف پی
بورس جانسن کی انتخابی مہم کا محور بریگزٹ کا عمل مکمل کرنا تھا—تصویر: اے ایف پی
بورس جانسن مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے رہنما بن گئے—تصویر: اے ایف پی
بورس جانسن مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے رہنما بن گئے—تصویر: اے ایف پی

برطانیہ کے عام انتخابات میں حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی پارلیمان کی 650 میں سے 365 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔

برطانوی پارلیمان کی 650 نشستوں میں سے قدامت پسند جماعت کے 368 نشستیں جیتنے کی پیش گوئی کی گئی تھی، تاہم اس نے پیش گوئی سے محض تین نشستیں کم یعنی 365 پر کامیابی حاصل کی۔

کنزرویٹو پارٹی کو حالیہ عام انتخابات میں حاصل ہونے والی نشستوں کی تعداد گزشتہ انتخابات سے 47 زیادہ ہے۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ برطانوی شہریوں نے کنزرویٹو جماعت کی حکومت کو بریگزٹ اور ملک کو متحد کرنے کے لیے ’نیا اور طاقتور مینڈیٹ دیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: انتخابات میں بریگزٹ، صحت کی سہولیات ووٹرز کیلئے اہم

واضح رہے کہ برطانیہ میں 5 سال سے کم عرصے میں یہ تیسرے عام انتخابات ہیں جو 100 برس میں پہلی مرتبہ دسمبر میں ہوئے۔

انتخابی مہم کے دوران بورس جانسن کی مہم میں جو پیغام واضح طور پر دیا گیا وہ بریگزٹ کے عمل کو مکمل کرنا تھا جبکہ لیبر پارٹی نے پبلک سروس اور نیشنل ہیلتھ سروس پر اضافی رقم خرچ کرنے کے وعدے پر اپنی مہم مرکوز رکھی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں کرسمس سے چند روز قبل ہی عام انتخابات کی منظوری

اس کامیابی کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے رہنما بن گئے۔

حالیہ انتخابات میں 1987 میں مارگریٹ تھیچر کے دور کے بعد کنزرویٹو کو اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی جبکہ 1935 کے بعد لیبر پارٹی کو حاصل ہونے والی نشستوں کی کم ترین تعداد ہے۔

انتخابات سے قبل 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا تھا کہ اگر بورس جانسن وزیراعظم کے دفتر میں واپس آئے تو کابینہ میں معمولی رد و بدل کیا جائے گا۔

یورپی یونین سے اخراج کے معاہدہ کے بل پر دوسری بحث 20 دسمبر کو ہوگی جس کے ذریعے31 جنوری کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہوجائے گا۔

اپوزیشن جماعتوں کی صورتحال

دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربن کے لیے یہ انتخابات تباہ کن ثابت ہوئے جن سے نتائج مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔

ان کی جماعت گزشتہ انتخابات سے 59 نشستیں کم یعنی 203 پر کامیابی سمیٹی۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ : ’یورپی یونین کے انتخابات میں حکمراں جماعت کو مشکلات پیش آسکتی ہیں‘

جرمی کوربن کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج ان کی جماعت کے لیے ’انتہائی مایوس کن‘ ہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں لیبر پارٹی کی سربراہی نہیں کریں گے۔

اس کے علاوہ بریگزٹ مخالف جماعت لبرل ڈیموکریٹس کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں 13 نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی کی پیش گوئی کی جارہی تھی تاہم اس نے 11 نشستیں حاصل کیں، دو سال قبل ہونے والے انتخابات میں اس جماعت نے 12 نشستیں حاصل کی تھیں۔

حالیہ انتخابات میں بریگزٹ مخالف 2 جماعتوں کے سربراہان کو بھی شکست ہوئی جن میں لبرل ڈیموکریٹس کی سربراہ جو سونسن، جو اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) سے اپنی نشست ہار گئیں۔

دوسری جانب شمالی آئرلینڈ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نیگل ڈوڈس بھی اپنی نشست سے محروم ہوگئے۔

اس کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ بھی اپنی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔

پاؤنڈ کی قدر میں اضافہ

انتخابات میں ایک مرتبہ پھر برطانوی وزیراعظم بورس جانس کو کامیابی ملنے کے امکان پر یہ امید ہے کہ وہ بریگزٹ مکمل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں گے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جس کے بعد پاؤنڈز کی قدر ڈالر کی قدر کے مقابلے میں 2 فیصد بڑھ گئی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

خیال رہے کہ برطانیہ میں 2016 میں یورپی یونین سے اخراج کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کے بعد سے سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں میں غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہے جنہیں کنزرویٹوز کی کامیابی سے یقین ہے کہ بریگزٹ کا عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں