حکومت سندھ نے بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2019
21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھ— فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن
21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھ— فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن

اسلام آباد: سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے جمع کروائے فنڈز کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی (بی ٹی کے) کی جانب سے سپر ہائی وے پروجیکٹ سے متعلق کیس میں 460 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائے تھے جس پر وفاقی اور سندھ حکومتوں کے درمیان رقم کے حصول پر تنازع پیدا ہوا اور دونوں ہی رقم کے دعویدار ہیں۔

سندھ حکومت نے چیف سیکریٹری کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنائے گئے اکاونٹ میں بحریہ ٹاؤن کی (بیعانہ) ڈاؤن پیمنٹ صوبائی حکومت کے اکاؤنٹ نمبر 1 میں منتقل کی جائے۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ کا بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

22 اگست کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں تقاضہ کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم کو وفاقی حکومت کے پبلک اکاؤنٹس میں جمع کروایا جائے۔

یاد رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 4 مئی 2018 کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا مذکورہ زمین سندھ حکومت نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو اضافی ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر کے لیے دی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اپنی طرف سے زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردی تھی اور صوبائی حکومت کی جانب سے کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی شقوں کے تحت کسی بھی چیز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی

مذکورہ پیشکش صرف بحریہ ٹاؤن سپرہائی وے پروجیکٹ سے متعلق ہے جو 16 ہزار 8 سو 96 ایکڑ زمین پر محیط ہے۔

حالیہ درخواست میں سندھ حکومت نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ درخواست کو عدالت کی جانب سے 16 دسمبر سے شروع ہونے والے ہفتے یا کسی اور تاریخ پر جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سماعت میں غیر ضروری تاخیر سے عوام اور درخواست گزار دونوں کو سنگین اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khan Dec 16, 2019 12:16am
پہلی بات تو یہ ہے کہ برطانیہ سے ملنے والی رقم کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ کیا یہ رقم غیر قانونی طور پر کمائی گئی تھی جو حکومت پاکستان کو واپس کی گئی یا پھر یہ ملک ریاض کی قانونی رقم ہے جو وہ بحریہ ٹاؤن کی ادائیگی کے سلسلے میں ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ رقم ملک ریاض کی جانب سے غیر قانونی طور پر ملک سے منتقل کی گئی تھی اور اب پاکستان کو واپس کی گئی تو اس رقم کو بحریہ ٹاؤن ادائیگی کے لیے استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو حکومت پاکستان کو واپس دے دیا جانا چاہیے کیونکہ اس معاملے کے بعد سے ہرطرف چپ سی لگی ہوئی ہے نہ تو حکومت اصل حقائق بتانے کے لیے تیار ہے ہے نہ کوئی صحافی اس رقم کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب نے ہونٹ سی لیے ہیں۔ اگر سندھ حکومت کی اس بات کو مان لیا جائے کہ اس رقم پر سندھ کا حق ہے تو پھر اس رقم پر کراچی کا زیادہ حق ہے۔
Khan Dec 16, 2019 12:16am
دوسری بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کو یہ رقم کس لیے دی جائے۔ سندھ حکومت دس بارہ سال سے صوبے میں حکمرانی کر رہی ہے کیا وہ اپنا کوئی ایک ایسا منصوبہ بتا سکتی ہے جو اس نے اچھے طریقے سے مکمل کیا ہو اور وہ اب تک لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہو۔ گزشتہ دنوں کتنے ہی انڈرپاسز اور پلوں کا افتتاح کیا گیا۔ اگر اس کو دیکھا جائے تو سب میرین چورنگی پر بنایا جانے والا انڈرپاس لیک ہے۔ پلوں پر حفاظتی ریلنگ تک نہیں لگائی گئی اور پانی کے منصوبوں کا تو سب سے برا حال ہے۔ کراچی میں کیماڑی اور لیاری میں اربوں روپے کے تمام آر او پلانٹ بند ہوچکے ہیں۔سندھ کے باقی علاقوں خصوصا تھر میں میں آرو پلانٹ ناکام ثابت ہوئے۔پبلسٹی تو بہت کی گئی مگر اب وہ عوام کو فائدہ نہیں پہنچا رہے۔ کے 4 منصوبے کا بھی برا حال ہے۔ 8 ارب کا منصوبہ بڑھ کر 80 ارب تک پہنچ گیا ہے اور شاید ایک کھرب سے تجاوز کر جائے اور افسوس منصوبہ مکمل ہونے کے بعد کہا جائے گا کہ ہم نے تو پانی کی لائینیں ہی نہیں بچھائیں۔