’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

16 دسمبر 2019
پولیس نے گرلز ہاسٹل میں گھس کر ہراساں کیا،بھارت اب رہنے کے قابل نہیں رہا، ہندو طالبہ—اسکرین شاٹ
پولیس نے گرلز ہاسٹل میں گھس کر ہراساں کیا،بھارت اب رہنے کے قابل نہیں رہا، ہندو طالبہ—اسکرین شاٹ

گزشتہ ہفتے بھارتی پارلیمنٹ سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جانے والے بھارت کے متنازع ’شہریت ترمیمی بل 2019‘ کے بعد بھارت بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔

دارالحکومت نئی دہلی سے لے کر آسام اور بھارت کی دیگر ریاستوں کے بڑے شہروں میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

دارالحکومت نئی دہلی کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والی قدیم ترین یونیورسٹی ’ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی‘ کے طلبہ کی جانب سے سب سے زیادہ اس بل پر مظاہرے کیے گئے اور پولیس نے طلبہ کے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے اپنی حدود ہی پار کرلیں۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری غیر قانونی طور پر یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور بڑے پیمانے پر طلبہ کو ہراساں کرنے سمیت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

جامعہ ملیہ میں 14 دسمبر سے 16 دسمبر تک شدید مظاہرے رہے—فوٹو: رائٹرز
جامعہ ملیہ میں 14 دسمبر سے 16 دسمبر تک شدید مظاہرے رہے—فوٹو: رائٹرز

رپورٹ کے مطابق پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والوں میں نہ صرف مسلمان اور مرد طلبہ شامل ہیں بلکہ پولیس کی جانب سے بڑی تعداد میں طالبات کو بھی ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات پیش آئے۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع بھارتی شہریت بل لوک سبھا سے منظور

پولیس کی جانب سے غیر قانونی طور پر طلبہ کے ہاسٹلز سمییت طالبات کی ہاسٹلز میں داخل ہونے کے خلاف نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طالبات نے بھی مظاہرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح پولیس نے ہاسٹلز میں گھس کر طالبات کو ہراساں کیا۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ انوگیا نے یونیورسٹی کے باہر روتے ہوئے میڈیا کو پولیس کے ظلم کی داستان سنائی۔

ریاست آسام میں سب سے زیادہ مظاہرے کیے گئے—فوٹو: اے پی
ریاست آسام میں سب سے زیادہ مظاہرے کیے گئے—فوٹو: اے پی

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی مذکورہ طالبہ کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح جواں سالہ طالبہ پولیس کے تشدد سے ڈری ہوئی ہے۔

جامعہ ملیہ کی طالبہ نے روتے ہوئے بتایا کہ پولیس غیر قانونی طور پر متنازع شہریت قانون پر مظاہرہ کرنےو الے طلبہ کو روکنے کے نام پر یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: بھارت کا متنازع شہریت بل راجیا سبھا سے بھی منظور

طالبہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو تو تشدد کا نشانہ بنایا ہی مگر پولیس نے پر امن رہنے والی طالبات کو بھی ہراساں کیا اور زبردستی گرلز ہاسٹل میں گھس آئی۔

طالبہ کے مطابق پولیس نے گرلز ہاسٹل میں گھس کر طالبات کو تشدد کا نشانہ بنانے سمیت انہیں ہراساں کیا اور یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ کرکے تشدد کو ہوا دی۔

رونے والی طالبہ نے بتایا کہ وہ ہندو ہیں اور وہ دوسری ریاست سے دہلی میں یہ سوچ کر تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں کہ یہ شہر دارالحکومت ہونے کی وجہ سے پر امن ہوگا مگر آج انہیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔

طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ مسلمان نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ کرکے انہیں ان کے گھر سے محروم کردیا گیا کیوں کہ یونیورسٹی ان کا گھر تھی۔

طالبہ نے مزید کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، ہندو طالبہ نے روتے ہوئے کہا کہ اب ‘بھارت‘ رہنے کے قابل نہیں رہا۔

طالبہ نے روتے ہوئے کہا کہ وہ یونیورسٹی میں آئین کی تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں مگر انہیں رات بھر پڑھنے نہیں دیا گیا، یونیورسٹی میں اس قدر ظلم و ستم کیا گیا ہے کہ وہ رات بھر ایک سے دوسری جگہ بھاگتی رہیں۔

ویڈیو میں ہندو طالبہ کو خوف کی حالت میں مسلسل روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز
نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز

خیال رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے مذکورہ بل 9 دسمبر 2019 جب کہ ایوان بالا یعنی لوک راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔

اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت بھر میں بل کی منظوری سے قبل ہی مظاہرے شروع ہوگئے تھے—فوٹو: رائٹرز
بھارت بھر میں بل کی منظوری سے قبل ہی مظاہرے شروع ہوگئے تھے—فوٹو: رائٹرز

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

اس قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

بل کے قانون بن جانے کے بعد اس کے خلاف نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور 16 دسمبر تک بھارت میں ہونے والے مظاہروں میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے جامعہ ملیہ سمیت دیگر اداروں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

مظاہروں کے دوران 16 دسمبر تک 6 افراد ہلاک 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے—فوٹو: رائٹرز
مظاہروں کے دوران 16 دسمبر تک 6 افراد ہلاک 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے—فوٹو: رائٹرز

تبصرے (0) بند ہیں