ملائیشیا میں آج سے کوالالمپور سمٹ کا آغاز، سعودی عرب کا بائیکاٹ

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2019
کوالالمپور سمٹ سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی
کوالالمپور سمٹ سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی

مسلمانوں کو دنیا بھر میں درپیش مسائل کے حل کے لیے 20 مسلم ممالک کے رہنما اور نمائندے ملائیشیا کے دارالحکومت ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے جمع ہو چکے ہیں جہاں سعودی عرب اور پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تحفظات کے سبب پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے، ملائیشیا کی تصدیق

ابھی تک کوالالمپور سمٹ کے لیے کوئی ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا لیکن اجلاس میں کئی دہائیوں سے جاری مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، شام اور یمن کے تنازع، میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور چین میں کیمپوں میں محصور ایغور مسلمانوں کے حوالے سے گفتگو متوقع ہے۔

دنیا بھر میں اپنے بے باک خطبات کے لیے مشہور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوان بھی اس 4روزہ سمٹ سے خطاب کریں گے جس کا آغاز بدھ کی رات عشائیے سے ہوگا اور یہ ہفتے کو اختتام پذیر ہوگا۔

سعودی عرب سے کشیدہ تعلقات کے حامل ممالک ایران کے صدر حسن روحانی اور قطری امیر شیخ تمیم بن حمید التھانی بھی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

سعودی عرب نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پونے 2 ارب مسلمانوں کے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے یہ سمٹ غلط فورم ہے تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ ایران، ترکی اور قطر جیسے علاقائی حریف اسے مسلم دنیا میں تنہا کردیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی ترک صدر سے ملاقات، مختلف امور پر تبادلہ خیال

سعودی عرب کے فرماں روا سلمان نے منگل کو مہاتیر محمد سے فون پر گفتگو میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے معاملات پر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بحث ہونی چاہیے۔

سمٹ کے ایک باوثوق ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی تاہم سعودی عرب نے اسی صورت میں اجلاس میں شرکت پر حامی بھری تھی اگر اسے اسلامی تعاون تنظیم کے تحت منعقد کیا جاتا۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس کے انعقاد پر سعودی عرب نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا البتہ سعودی حکومت کے منتخب ادارے نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا۔

سعودی عرب کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث اسلامی دنیا اس وقت دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور سنگاپور کی یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ اور عالمی امور کے ماہر جیمز ڈور نے اس حوالے سے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو دھڑے بن گئے ہیں، ایک گروپ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہے اور دوسرے میں قطر اور ترکی ہیں جبکہ پاکستان ان دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم تحفظات دور کرنے کے لیے ہفتے کو سعودی عرب روانہ ہوں گے

دنیا میں سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک انڈونیشیا کے سربراہ بھی اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور اس اجلاس میں ان کی نمائندگی نائب صدر معروف امین کریں گے۔

کوالالمپور میں وفود آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ملائیشین حکام اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک کی فہرست نہیں دے سکے، مہاتیر محمد کے دفتر سے اسلامی تعاون تنظیم کے تمام 56 اراکین کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن صرف 22 ملک اپنے وفود بھیجنے پر آمادہ ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت کم ممالک کی نمائندگی ان کے سربراہ کریں گے۔

ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ کچھ ناقدین کا یہ ماننا بالکل غلط ہے کہ ہم مسلم دنیا میں کوئی نیا دھڑا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سمٹ مذہب یا مذہبی معاملات پر بحث کے لیے پلیٹ فارم نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں