بھارت: شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں 3 شہری ہلاک

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2019
مظاہرین اسے بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں — فوٹو: رائٹرز
مظاہرین اسے بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں — فوٹو: رائٹرز

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج اور مظاہروں میں 3 شہری ہلاک ہوگئے جبکہ مظاہروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

واضح رہے کہ پولیس نے مختلف شہروں سے 100 سے زائد مظاہرین کو بھی گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق منگلورو میں پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جبکہ لکھنؤ میں ایک شخص ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق شہریت کے قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے جو مختلف مذاہب کے افراد کو شہریت دینے سے متعلق ہے جبکہ اس میں مسلمان شامل نہیں۔

ماضی میں خود کو سیکیولر ریاست کے طور پر پیش کرنے والے بھارت میں حکومت نے حال ہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ کیا ہے جس کے بعد ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور مظاہرین اسے بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

بھارت کے بانی موہن داس گاندھی (مہاتما گاندھی) کی سوانح حیات تحریر کرنے والے تاریخ دان رام چندرا گوہا ان افراد میں شامل ہیں جنہیں ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت کے نئے قانون پر عملدرآمد روکنے کی اپیلیں مسترد کردیں

گرفتاری کے بعد فون پر بات کرتے ہوئے رام چندرا گوہا نے بتایا کہ وہ ایک بس میں سوار ہیں جس میں ان کے ساتھ گرفتار کیے جانے والے دیگر افراد کو پولیس کسی نامعلوم مقام پر منتقل کررہی ہے۔

نئی دہلی میں سواراج انڈیا پارٹی کے چیف یوگیندرا یادیو، ان افراد میں شامل ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ نئی دہلی کے لال قلعہ اور تاریخی ضلع پر احتجاج کریں گے۔

بھارتی حکام نے مظاہروں کو روکنے کے لیے نئی دہلی کے کچھ حصوں میں انٹر نیٹ سروس کو بلاک کردیا، جیسا کہ اس سے قبل بھی مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں ایسے اقدامات کرچکے ہیں جبکہ اس طرح کی پابندیوں کی دارالحکومت نئی دہلی میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

گزشتہ روز حکام نے آسام میں مظاہروں پر پابندی عائد کرتے ہوئے انٹر نیٹ سروس بند کرکے کرفیو نافذ کردیا تھا۔

گزشتہ روز ہی بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت میں ترمیم سے متعلق قانون کے خلاف درخواستیں مسترد کردی تھیں، جس کے باعث ملک میں جاری مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔

خیال رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کو آج ساتواں روز ہے جن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مزید شدت آئی، نئی دہلی میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جو شہریت کا متنازع قانون واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے پتھر اور کانچ کی بوتلیں برسارہے تھے۔

4 روز قبل بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں مذکورہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا تھا، جس سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: غیرمسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش

واقعے سے متعلق شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کو آنسو گیس کے شیل فائر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند نظر آرہے ہیں۔

علاوہ ازیں بھارتی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے کیے گئے تھے جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت بھی جاری ہے۔

مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟

شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں