سال 2019ء اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی کھیلوں کی دنیا میں متعدد مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ ان مقابلوں میں کوئی جیتا تو کوئی ہارا، کوئی رویا اور کوئی ہنسا۔

لیکن کھیل کے میدان میں ہار جیت کے بعد جس معاملے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اسے تنازعات کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ ایسی خطرناک بلا کا نام ہے، جو بڑے بڑے ناموں کو زیرو کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ نتائج کو بدلنے کے حوالے سے بھی خوب شہرت رکھتی ہے۔

اس سال بھی یہ تنازعات کھیلوں کے شائقین اور منتظمین کے لیے دردِ سر بنے رہے۔ سال کے ان اختتامی دنوں میں ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے رواں سال ہونے والے چند اہم تنازعات کا جائزہ پیش کررہے ہیں۔

کرکٹ کے عالمی کپ کا متنازع ترین فائنل

اس سال انگلینڈ میں مئی کے اواخر سے جولائی کے وسط تک ایک روزہ کرکٹ کا عالمی کپ منعقد ہوا۔ اس عالمی کپ میں جہاں متعدد دلچسپ اور سنسنی خیز میچ دیکھنے کو ملے وہیں بہت سے اہم مقابلے بارش سے متاثر ہوئے۔

عالمی کپ میں پہلا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب بہت سے ناقدین نے ٹورنامنٹ کے تمام میچوں کے لیے اضافی دن نہ رکھنے پر اعتراض اٹھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ خراب امپائرنگ نے بھی بہت زیادہ دکھ پہنچایا۔

اس عالمی کپ کا فائنل لارڈز کے تاریخی میدان پر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ فائنل اس اعتبار سے بھی دلچسپ تھا کہ جو ٹیم بھی جیتے گی وہ پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کرے گی۔

اس میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 241 رنز جوڑے۔ بظاہر آسان نظر آنے والے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کو ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا رہا۔ ایک موقع پر انگلینڈ کے 4 کھلاڑی صرف 86 رنز پر آؤٹ ہوگئے تھے، جس کے بعد بین اسٹوکس اور جوس بٹلز نے 110 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کی امید بڑھائی۔ آخری اوور میں انگلینڈ کو جیت کے لیے 15 رنز درکار تھے۔

تصویر بشکریہ اے ایف پی

نیوزی لینڈ کے کپتان نے یہ آخری اوور کرنے کی ذمہ داری ٹرینٹ بولٹ کو سونپی۔ اس اوور کی پہلی 2 گیندوں پر کوئی رن نہیں بنا۔ تیسری گیند کو بین اسٹوکس نے 6 رنز کے لیے باؤنڈری سے باہر پھینک کر میچ میں سنسنی پیدا کردی۔ چوتھی گیند پر بین اسٹوکس نے ایک زوردار شاٹ کھیلا اور 2 رنز حاصل کیے۔

بس یہی وہ لمحہ ہے، جس نے دنیا بھر کی نظریں اپنی جانب متوجہ کرلیں اور ایک بھرپور تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جس وقت انہوں نے دوسرا رن مکمل کرنے کے لیے اپنی کریز میں ڈائیو لگائی ٹھیک اس وقت فیلڈر کی جانب سے پھینکی گئی گیند آکر ان کے بلے سے ٹکرائی اور پلک جھپکنے میں باؤنڈری سے باہر چلی گئی۔ یوں جس گیند پر صرف 2 رنز بننے تھے اس پر انگلینڈ کو 6 رنز مل گئے، اور اب بقیہ 2 گیندوں پر انگلینڈ کو جیت کے لیے 3 رنز درکار تھے لیکن وہ صرف 2 رنز ہی بناسکے اور میچ ٹائی ہوگیا۔

ٹورنامنٹ کے قانون کے مطابق فائنل کو فیصلہ کن بنانے کے لیے سپر اوور کھیلا گیا، مگر حیران کن طور پر سپر اوور بھی ٹائی ہوگیا۔ عام کرکٹ شائقین کو تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اب ہوگا کیا؟ لیکن اس صورتحال سے نکلنے کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا قانون موجود تھا، اور اسی عجیب و غریب قانون کی بنیاد پر انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا۔

قانون کچھ یہ تھا کہ جس ٹیم نے بھی ٹائی ہونے کی صورت میں میچ میں زیادہ باؤنڈریز اسکور کی ہوں گی، وہی ٹیم فاتح تصور ہوگی۔

پھر میچ ختم ہونے کے محض چند گھنٹے بعد ہی آئی سی سی کے ایلیٹ پینل سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے امپائر سائمن ٹوفل نے اس وقت صورتحال کو مزید دلچسپ بنا دیا جب انہوں نے کرکٹ کے قوانین کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات ثابت کردی کہ 50ویں اوور کی چوتھی گیند پر انگلیند کو اصل میں 5 رنز ملنے چاہیے تھے اور 6 رنز دے کر امپائر نے علطی کی۔

فائنل میچ کے اختتامی لمحات میں ہونے والے ان 2 واقعات نے انگلینڈ کی جیت کو متنازع بنادیا۔ یہ واقعات کرکٹ کا انتظام چلانے والے ادارے آئی سی سی کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ اہم مقابلوں میں ایسے امپائر نامزد کریں جو قوانین کو صحیح طریقے سے سمجھتے ہوں۔

عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی جانب سے روس پر پابندی

سال کا یہ آخری مہینہ روس کے لیے کوئی اچھا پیغام لے کر نہیں آیا۔ سوئٹزرلینڈ میں 9 دسمبر کو عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (WADA) کے ایک اہم اجلاس میں روس پر 4 سال کی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ یقینی طور پر روس کے لیے بڑا دھچکا ہے کیونکہ انہی 4 سالوں کے دوران یعنی اگلے سال ٹوکیو اولمپکس اور 2022ء میں قطر میں فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد ہونا ہے، اور اس پابندی کی وجہ سے روس ان میں شرکت نہیں کرسکے گا۔

اس فیصلے کا مطلب یہ بھی ہے کہ روس اگلے 4 سال تک کسی بھی بین الاقوامی مقابلے کی میزبانی بھی نہیں کرسکے گا۔

اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ روس کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی ممنوعہ ادویات کی روک تھام کے لیے عالمی ادارے سے تعاون نہیں کر رہی۔

عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (WADA) نے روس پر 4 سال کی پابندی عائد کردی ہے—اے ایف پی
عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (WADA) نے روس پر 4 سال کی پابندی عائد کردی ہے—اے ایف پی

روس اگلے 4 سال تک نہ ہی کسی بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کرسکتا ہے اور نہ ہی مقابلوں کی میزبانی کرسکتا ہے—رائٹرز
روس اگلے 4 سال تک نہ ہی کسی بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کرسکتا ہے اور نہ ہی مقابلوں کی میزبانی کرسکتا ہے—رائٹرز

روس کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی پر عالمی ادارے کے احکامات نہ ماننے کا الزام عائد کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ روسی ادارے نے جنوری 2019ء میں عالمی ایجنسی کو جو ڈیٹا فراہم کیا تھا اس میں جان بوجھ کر تبدیلی کی گئی تھی۔

ماضی میں عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے ممنوعہ ادویات لینے کے الزام میں متعدد کھلاڑیوں پر تو پابندی عائد کی ہے، لیکن کسی ملک پر اس طرح کی پابندی کبھی نہیں لگائی گئی، اور اس اعتبار سے پابندی کا شکار ہونے والا روس پہلا ملک بن گیا ہے۔

وی اے آر ٹیکنالوجی سے متعلق تنازع

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عالمی کپ اور تنازعات ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر عالمی کپ میں ریفری کی غلطی سے ہونے والا تنازع اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ٹورنامنٹ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہوتا ہے اور ایک غلطی کسی بھی ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر کرسکتی ہے۔

رواں سال فرانس میں خواتین کا عالمی فٹبال ورلڈ کپ کھیلا گیا۔ اس عالمی مقابلے میں انگلینڈ اور امریکا کے درمیان کھیلا جانے والا پہلا سیمی فائنل تنازعات کا شکار رہا۔

اس میچ میں امریکا نے 10ویں منٹ میں گول کرکے برتری حاصل کی، جسے 19ویں منٹ میں انگلینڈ نے برابر کردیا۔ کھیل کے 41ویں منٹ میں امریکا نے ایک اور گول کرکے اپنی برتری کو دوبارہ حاصل کرلیا۔

امریکا کی برتری کو ختم کرنے کے لیے انگلینڈ نے سر توڑ کوشش کی اور اسے اس محنت کا نتیجہ ٹھیک 26 منٹ بعد 67ویں منٹ میں اس وقت ملا جب انگلیند کی کھلاڑی ایلن وائٹ نے گیند کو جال میں پھینک دیا۔

اب بظاہر مقابلہ برابر ہوگیا تھا لیکن امریکا کے کھلاڑیوں نے وی اے آر (ویڈیو اسسٹنس ریفری) کے استعمال کی اپیل کی اور وی اے آر سے ثابت ہوا کہ انگلینڈ کی کھلاڑی کے پاؤں کا صرف انگوٹھا ہی آف سائیڈ پوزیشن میں تھا اور یوں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے فیصلہ واپس لینا پڑگیا۔ لیکن یہ فیصلہ کسی بھی طور پر انگلینڈ کی کھلاڑیوں، آفیشلز اور کمنٹیٹرز کو ایک آنکھ نہ بھایا اور ان کے حمایتیوں نے بھی کھیل کے دوران اور میچ کے بعد اس فیصلے پر اپنی ناپسندیدگی کا کھل کر اظہار کیا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ فٹبال کو تنازعات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہی وی اے آر ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ٹیکنالوجی جس کسی کے بھی خلاف فیصلہ دے، وہ ناخوش ہی رہتا ہے، بلکہ اس کو ایک تنازع کی شکل دینا شروع کردیتا ہے۔

اب اس میچ میں مزے کی بات تو اس وقت ہوئی جب 80ویں منٹ میں اسی وی اے آر ٹیکنالوجی کے استعمال سے انگلینڈ کو پنالٹی کک ملی۔ اب تو لگ رہا تھا کہ انگلینڈ کی ساری شکایتیں دُور ہونے والی ہیں، مگر حیران کن طور پر انگلینڈ کی ٹیم میچ برابر کرنے کے اس سنہری موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکی اور یوں امریکا نے یہ میچ جیت کر فائنل میں جگہ بنا لی۔

ویسے مجھے یقین ہے کہ اگر انگلینڈ کی ٹیم اس پنالٹی کک سے فائدہ اٹھا لیتی تو وی اے آر سے متعلق اس کی شکایت بہت حد تک کم ہوجاتی۔

لباس کی وجہ سے کھڑا ہونے والا تنازع

رواں سال آسٹریلوی ٹینس کھلاڑی نک کِرگیوس کو یو ایس اوپن کے دوران اس وقت ایک تنازع کا سامنا کرنا پڑا جب اس ٹورنامنٹ کے دوسرے راؤنڈ کے دوران ان کی جرسی کے کالر پر لکھے ہوئے الفاظ کی وجہ سے میچ ریفری نے انہیں کالر نیچے کرنے کا حکم دیا۔

نک کِرگیوس نے ریفری کے اس فیصلے کو چیلنج کیا اور سپروائزر کو ٹینس کے قوانین کی کتاب لانے کو کہا۔ نک کِرگیوس کو امپائر کے ساتھ اس بحث و مباحثے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کو ٹورنامنٹ کے اگلے راؤنڈ کے میچوں کے لیے اپنے کالر پر لکھے الفاظ چھپانے کی ممانعت سے آزادی مل گئی۔

جرسی کے کالر پر لکھے ہوئے الفاظ کی وجہ سے میچ ریفری نے نک کِرگیوس کو کالر نیچے کرنے کا حکم دیا—اے ایف پی|ٹوئٹر
جرسی کے کالر پر لکھے ہوئے الفاظ کی وجہ سے میچ ریفری نے نک کِرگیوس کو کالر نیچے کرنے کا حکم دیا—اے ایف پی|ٹوئٹر

نک کِرگیوس کو جو کوئی بھی جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہ گرم مزاج کے کھلاڑی ہیں۔

ان کا وہ واقعہ بہت مشہور ہے جب انہوں نے ٹینس کی عالمی تنظیم ATP کو اس وقت نہایت کرپٹ قرار دیا جب ایک صحافی نے میچ ریفری سے بدتمیزی کرنے پر 1 لاکھ 67 ہزار امریکی ڈالرز کے جرمانے سے متعلق ان سے سوال پوچھا تھا۔

تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی سال گزرا ہو جس میں مختلف کھیلوں کے میدان تنازعات سے آزاد رہے ہوں۔

یہ درست ہے کہ کھلاڑی اپنے مداحوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں لیکن یہ کھلاڑی بھی جذبات رکھتے ہیں۔ جیت کے لیے سالہا سال تیاری کرتے ہیں لیکن بعض اوقات جب یہ اپنی محنت کو ضائع ہوتے دیکھتے ہیں تو جذبات میں آکر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتے ہیں جو ان کے لیے اور ان کے ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنتی ہے۔

ویسے تو کھیل کے میدان میں اور بھی کئی ایسے تنازعات ہوئے ہوں گے جن کا یہاں ذکر کرنا رہ گیا، مگر چونکہ یہ عالمی سطح کا معاملہ تھا، اس لیے سوچا کہ قارئین کے ساتھ اس کو شئیر کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں