توہین مذہب کیس میں لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت کا حکم

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2019
جنید حفیظ سابق لیکچرار تھے— فائل فوٹو: ڈان
جنید حفیظ سابق لیکچرار تھے— فائل فوٹو: ڈان

ملتان کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے توہین مذہب کیس میں یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت سنادی۔

واضح رہے کہ ملتان کی بہاالدین زکریا یونیورسٹی (بی زیڈ یو) کے ڈپارٹمنٹ آف انگلش لٹریچر (انگریزی ادب) کے سابق وزیٹنگ لیکچرار جنید حفیظ کو توہین مذہب کے الزام میں 13 مارچ 2013 کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ مقدمے کا آغاز 2014 میں ہوا تھا۔

آج اس کیس کی سماعت میں ایڈیشنل سیشن جج کاشف قیوم نے جنید حفیظ کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت سزائے موت اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جبکہ جرمانہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید 6 ماہ قید کاٹنا ہوگی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

عدالت کی جانب سے جنید حفیظ کو دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید اور 295 اے کے تحت 10 سال قیدبامشقت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جنید حفیظ انگلش لٹریچر میں گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے مراحل میں تھے کہ انہیں فیس بک کی پوسٹس پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔

مقامی عدالت کے مختصر فیصلے کے مطابق تمام سزائیں تسلسل کے ساتھ چلیں گی اور ملزم سی آر پی سی کی دفعہ 382-بی کے فائدے کا حقدار نہیں ہوگا کیونکہ یہ توہین مذہب کا مقدمہ ہے اور یہ عدالت نرم رائے نہیں رکھ سکتی اور اسلام میں بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔

کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 382-بی کے تحت جیل میں قیدی کی سزا کی مدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب ٹرائل کورٹ کی جانب سے فرد کو سزا سنائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ جنید حفیظ اس وقت ملتان سینٹرل جیل میں قید ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سابق لیکچرار کے سابق وکیل راشد رحمٰن کو مئی 2014 میں ان کے دفتر میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

جنید حفیظ کے والد نے رواں سال کے اوائل میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کے بیٹے کا کیس دیکھیں، ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے خطرے کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص پر مقدمہ

انہوں نے کہا تھا کہ ان کا بیٹا توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں گزشتہ 6 برس سے سینٹرل جیل ملتان کے ایک سیل میں قید تنہائی کاٹ رہا ہے۔

سابق چیف جسٹس کو لکھی گئی تحریری درخواست میں جنید حفیظ کے والدین نے کہا تھا کہ 'مختلف ججز کی منتقلی، استغاثہ کے گواہوں کی تاخیری حربے اور حساس نوعیت کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے دفاع کے لیے مناسب قانون وکیل کی تلاش میں دشواریوں کے باعث ہمارا بیٹا ایک من گھڑت کیس میں انصاف کا منتظر ہے'۔

پاکستان میں توہین مذہب

توہین مذہب پاکستان میں ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انسانی حقوق کے مختلف گروپس کا اس حوالے سے دعویٰ ہے کہ اس قانون کو انتقام اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

2017 میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے الزام لگانے کے بعد مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہجوم نے ایک طالب علم مشال خان پر تشدد کیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے کیس میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو ختم کرتے ہوئے انہیں بری کردیا تھا۔

واضح رہے کہ اب تک ملک میں توہین مذہب کے الزام میں کسی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں