پشاور ہائیکورٹ: جنسی استحصال کرنے والے شخص کے قتل پر بچے کی سزا برقرار

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2019
بینچ  نے اس قیدی کی درخواست نمٹانے کے ساتھ مقتول کے بھائی کی جانب سے سزا پر نظر ثانی کی اپیل بھی خارج کردی، فائل فوٹو: رائٹرز
بینچ نے اس قیدی کی درخواست نمٹانے کے ساتھ مقتول کے بھائی کی جانب سے سزا پر نظر ثانی کی اپیل بھی خارج کردی، فائل فوٹو: رائٹرز

پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے جاری فیصلے کے مطابق جنسی استحصال اور بلیک میلنگ سے اپنا بچاؤ کرنا ایسی صورت ہے کہ جس کے تحت استحصال کرنے والے کے قتل پر جووینائل (کم عمر قیدی) کی سزا میں تخفیف ہوسکتی ہے۔

تاہم جسٹس روح الامین خان چمکنی اور جسٹس ناصر محفوظ نے حکم سنایا کہ ایسی صورتحال کے نتیجے میں ملزم کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 100 کے تحت بری نہیں کیا جاسکتا جو اپنے دفاع میں کمیشن سے نمٹنے کے لیے ہے۔

مذکورہ حکم بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک تفصیلی فیصلے کا حصہ تھا جو ایک کم عمر قیدی کی درخواست پر سنایا گیا۔

اس کم عمر قیدی کو جووینائل عدالت (عدالت اطفال) نے 29 جولائی 2019 کو ایک ایسے شخص کو قتل کرنے پر 10 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس نے اس قیدی کا جنسی استحصال کرنے کے بعد بلیک میل کیا تھا۔

بینچ نے اس قیدی کی درخواست نمٹانے کے ساتھ مقتول کے بھائی کی جانب سے سزا پر اس نظر ثانی کی اپیل کو بھی خارج کردیا جس میں قیدی کو دی گئی سزا میں اضافہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کے جنسی استحصال کے الزام میں استاد گرفتار

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ مدعی کی کم عمری اور کیس کی صورتحال کے تناظر میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی 10 سال قید کی سزا منصفانہ اور مناسب ہے۔

بینچ نے قیدی کی اپیل اورنظر ثانی کی درخواست پر گزشتہ ماہ فیصلہ سنایا تھا جس کے تفصیلی فیصلے میں مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی۔

یہاں واضح رہے کہ عمومی طور پر قتل کرنے والے مجرم کو عمر قید یا سزائے موت دی جاتی ہے۔

تاہم مذکورہ واقعے کا مقدمہ 31 جولائی 2016 کو تھانہ کالو خان میں مقتول کے بھائی امجد علی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مدعی نے دعویٰ کیا تھا کہ وقوعہ کے روز ان کا بھائی عادل حسین گھر واپس نہیں آیا تھا اور اس کی لاش نزدیکی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی تھی۔

مقدمے کے اندراج کے بعد ملزم کو 2 اگست 2016 کو گرفتار کیا گیا تھا جس نے جوڈیشل مجیسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

اپنے اعترافی بیان میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ واقعے سے 3 سال قبل مقتول نے اسے نشہ آور مشروب پلا کر اس کی قابل اعتراض ویڈیو بنائی تھی جس کی بنیاد پر وہ اسے بلیک میل کر کے بدفعلی کیا کرتا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان: بچوں کے جنسی استحصال میں 33 فیصد اضافہ

انہوں نے بیان میں مزید کہا تھا کہ واقعے کے روز بھی مقتول اس کی رہائش گاہ پر آکر اس کا جنسی استحصال کرنے کے لیے اصرار کر رہا تھا جس کے باعث اس کے پاس گولی چلا کر جائے وقوع سے فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر مدعی کے اعترافی بیان کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں جرم کا ارتکاب کیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اعترافی بیان کے مطابق مقتول مدعی کو متواتر بلیک میل کرتا تھا جس کی مدعی نے مقتول کے بھائی سے شکایت بھی کی تھی۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا کہ 'اس تمام تر صورتحال، حقائق اور اعترافی بیان کے تناظر میں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مدعی نے اپنے آپ کو جنسی استحصال اور بلیک میلنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے قتل کیا'۔

تاہم فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 'مدعی کی جانب سے مقتول کے جسم کے اہم حصے کا انتخاب اپنے دفاع کے حق سے تجاوز تھا'۔


یہ خبر 26 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں