جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں ایف آئی اے کی پرویز رشید سے تفتیش

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2019
بابر بخت کی سربراہی میں ایف آئی اے ٹیم نے 30 منٹ تک مسلم لیگ (ن) کے رہنما سے تفتیش کی—تصویر: ڈان نیوز
بابر بخت کی سربراہی میں ایف آئی اے ٹیم نے 30 منٹ تک مسلم لیگ (ن) کے رہنما سے تفتیش کی—تصویر: ڈان نیوز

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سامنے پیش ہو کر جج ویڈیو اسکینڈل کیس کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی ونگ کے سربراہ بابر بخت کی سربراہی میں ایف آئی اے ٹیم نے 30 منٹ تک مسلم لیگ (ن) کے رہنما سے تفتیش کی۔

اس موقع پر ٹیمپل روڈ پر قائم ایف آئی اے کی عمارت کے باہر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔

تاہم پرویز رشید کی پیشی کے موقع پر پارٹی کارکنان نے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹریٹ پر چھاپے کے خلاف اس طرح مظاہرہ نہیں کیا جیسا جمعے کو عطا تارڑ کی پیشی کے موقع پر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل تحقیقات: ایف آئی اے نے مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں کو طلب کرلیا

بعدازاں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے بتایا کہ انہوں نے تفتیش کاروں سے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروائیں جس میں انہوں نے دباؤ میں آکر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ملز ریفرنس میں سزا سنانے کا اعتراف کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ویڈیو جعلی ہے تو مسلم لیگ (ن) کے خلاف مقدمہ ہونا چاہیے، اس کے ساتھ انہوں نے ایف آئی اے کو یہ بھی کہا کہ لندن میں موجود ناصر بٹ سے رابطہ کیا جائے جنہوں نے یہ ویڈیو بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک کھلا کیس ہے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ویڈیو کس نے بنائی تفتیش کی ضرورت نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) عدالت میں ثبوت پیش کرنے پر بھی یقین رکھتی ہے تاہم پارٹی رہنماؤں نے اپنے قائد کی بے گناہی کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی تھی۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: ملزم کا جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے کا اعتراف

واضح رہے کہ 23 دسمبر کو یف آئی اے نے سابق جج ارشد ملک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید، ڈپٹی جنرل سیکریٹری عطااللہ تارڑ اور عظمیٰ بخاری کو طلب کیا تھا۔

اس ضمن میں عطا تاڑر کو جمعہ 27 دسمبر کو دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا جبکہ سینیٹر پرویز رشید اور عظمیٰ بخاری کو 30 دسمبر کو طلب کیا گیا تھا تاہم عظمیٰ بخاری لندن میں موجود ہونے کے باعث پیش نہیں ہوئیں۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل ہے کیا؟

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

بعد ازاں احتساب عدالت اسلام آباد کے سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں