عرب لیگ نے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت کے ساتھ ترکی کے فوجی اور سمندری معاہدوں کے تناظر میں طرابلس میں 'بیرونی مداخلت کو روکنے' کا مطالبہ کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مصر کی درخواست پر قاہرہ کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک اجلاس میں عرب لیگ کے مستقل نمائندوں نے قرارداد منظور کی جس میں 'بیرونی مداخلت' کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا 'یہ مداخلت لیبیا میں غیر ملکی انتہا پسندوں کی آمد کو آسان بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے'۔

مزید پڑھیں: لیبیا: وزارت خارجہ کی عمارت پر حملہ، 3 افراد ہلاک، 10 زخمی

قرارداد میں لیبیا میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے صورتحال مزید خراب ہونے پر سنگین تشویش کا بھی اظہار کیا گیا اور اسے ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے لیبیا کے مندوب غسان سلامی نے کہا کہ ترکی اور طرابلس حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے شمالی افریقہ کے ملک میں تباہی پھیلانے والے تنازعات میں اضافے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ لیبیا میں ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے 2011 میں اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

سال 2014 کے بعد سے لے کر اب تک لیبیا کے مغربی اور مشرقی حصوں میں حکومتی سطح پر تنازعات برقرار ہیں، جنہیں مختلف عسکریت پسندوں اور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں اقتدار نئی پارلیمنٹ کے حوالے

لیبیا کے کئی علاقوں میں شدت پسند تنظیم داعش کا بھی کنٹرول ہے۔

واضح رہے کہ نومبر میں انقرہ نے طرابلس کے ساتھ ایک سلامتی اور فوجی تعاون سمیت سمندری دائرہ اختیار کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

علاوہ ازیں ترکی، جی این اے کی حمایت میں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہا ہے۔

مصر نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہا تھا کہ وہ انقرہ اور طرابلس کے مابین معاہدوں کو 'کالعدم اور قانونی طور پر غیر موثر' تصور کرتا ہے۔

قاہرہ نے مزید کہا کہ لیبیا میں غیر ملکی فوج کی تعیناتی اقوام متحدہ کے اسلحے کے پابندی کی خلاف ورزی تھی جس کے نتیجے میں وہ بغاوت کر رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں