وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2020
وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا—فوٹو:ڈان
وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا—فوٹو:ڈان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ پر ترامیم کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئین کی دفعہ 172 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کا واحد ایجنڈا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تھا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قواعد میں ابہام دور کرنے کے سپریم کورٹ کے دیے گئے حکم کی روشنی میں حکومت نے اس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے ہونے کے بعد ترمیمی بل پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ضمن میں کابینہ کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ’ترمیم کے مطابق، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیدہ عمر 64 برس ہوجائے گی جبکہ عمومی عمر 60 سال ہی رہے گی‘ اور وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ مستقبل میں آرمی چیف کو توسیع دے دیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ اجلاس کے بعد طے شدہ پریس کانفرنس وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو بغیر کوئی وجہ بتائے ملتوی کردی۔

اس ضمن میں کابینہ کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تجویز دی گئی جس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ 2023 تک آرمی چیف برقرار رہیں گے۔

آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے بل پارلیمان میں پیش کرنے سے قبل حکومت نے اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق وزیر دفاع پرویز خٹک حکومت کی ٹیم کی سربراہی کریں گے جبکہ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف اپوزیشن کی ٹیم کے سربراہ ہوں گے۔

مذکورہ ٹیموں کا اجلاس پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے جاری حالیہ سیشن کے دوران ہونے کا امکان ہے۔

اس بارے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ جیسا کہ حکومت نے جمعے کو بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے اس لیے حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کے مابین مذاکرات آج ہوسکتے ہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا ان کی جماعت نے یہ معاملہ قیادت کے ساتھ اٹھایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم یہ مسودہ دیکھنے کئے بعد کریں گے اب تک ہمارے پاس کچھ نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ (اپوزیشن) نہیں چاہتی کہ حکومت اتنی اہم قانون سازی کو ختم کرے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس پر پارلیمان اور متعلقہ کمیٹیوں میں بحث کی جائے۔

خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا تھا جب وفاقی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تین سال کی توسیع کی تھی جس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں وکیل حنیف راہی کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی

سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سےاگست میں جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔

بعد ازاں حکومت نے دسمبر کے اواخر میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی اور فیصلے کو ختم کرنے کی استدعا کی تھی۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست میں وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ یہ حکم بے ضابطگیوں کا شکار ہے جس نے انصاف کی مدد سے ہونے والے ایک عمل کو ناانصافی کے عمل میں تبدیل کردیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ عدالت نے آئین میں وضع کردہ قوانین کے ساتھ ساتھ 'اہم قوانین' کو بھی 'مکمل طور پر نظر انداز' کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع:حکومتی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے منظور

وفاقی حکومت، وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ درخواست گزار ہیں۔

سپریم کورٹ نے 27 دسمبر کو وفاقی حکومت کی نظر ثانی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرکے نمبر بھی الاٹ کردیا جس کو چیف جسٹس گلزار احمد کی ہدایت پر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جہاں مختلف امور پر بحث کی جارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں آرمی چیف کی تعیناتی، مدت اور توسیع کے حوالے سے قانون سازی پارلیمنٹ سے کروانے کا حکم دیا تھا اور اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی 16 دسمبر کو فیصلہ جاری کیا تھا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل بھی آرمی چیف ہوسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے اعتراف کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے متعلق بہت سے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔

فیصلے کے مطابق اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے اور ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے، پہلی بار یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا جبکہ پہلی سماعت میں درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن درخواست واپس لینے کے لیے تحریری استدعا کی جس کو عدالت نے رد کیا جبکہ اگلے روز وہ پیش ہوئے اور زبانی درخواست کی تو انہیں عدالت کا حکم سنا دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عوامی دلچسپی کے معاملات پر دی گئی درخواست سے دستبرداری عدالت کی اجازت سے ہوتی ہے۔

اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنی ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے مقررہ مدت میں قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں اگلا قدم کیا ہوگا اس پر بھی وضاحت کردی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کمانڈ، نظم، تربیت، انتظام، تنظیم، فوج کو جنگی تیاری اور جنرل ہیڈکوارٹرز کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر ذمہ دار تصور کرتے ہوئے ہم جوڈیشل ریسٹرینٹ کا مظاہر کررہے ہیں اور آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے کو پارلیمان اور وفاقی حکومت پر چھوڑنا مناسب ہے۔

پارلیمنٹ اور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ایکٹ کے ذریعے آرٹیکل 243 کی وسعت کی وضاحت کریں۔

یہ بھی پڑھیں:مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بحیثیت آرمی چیف حالیہ تعیناتی مذکورہ قانون سازی سے مشروط ہے اور 6 ماہ تک عہدے کو جاری رکھ سکتے ہیں اور نئی قانون سازی ان کی مدت اور سروس کے حوالے سے دیگر شرائط کی وضاحت کرے گی۔

عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت پارلیمنٹ سے جنرل یا آرمی چیف کی مدت اور دیگر شرائط پر قانون سازی اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے باوجود 6 ماہ کے اندر نہیں کرپائی تو آرمی چیف کے عہدے کو مکمل طور بے ضابطہ اور ہمیشہ کے ایسا نہیں چھوڑا جاسکتا اور یہ آئینی طور پر نامناسب بات ہوگی۔

عدالت عظمیٰ نے واضح کیا تھا کہ پارلیمنٹ سے 6 ماہ کے اندر اس حوالے سے قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر حاضر سروس جنرل کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں