کامیاب مذاکرات کے بعد مظاہرین گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر سے منتشر

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2020
مظاہرین نے پولیس پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا — فوٹو: ڈان نیوز
مظاہرین نے پولیس پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا — فوٹو: ڈان نیوز

گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر احتجاج کرنے والے درجنوں مظاہرین حکومتی نمائندوں سے کامیاب مذاکرات کے بعد پولیس نے گرفتار افراد کو رہا کردیا جس کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔

مظاہرین نے دھمکی دی تھی کہ اگر گرفتار افراد کو رہا نہیں کیا گیا تو وہ گردوارے میں داخل ہوجائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے نمائندوں اور مظاہرین کے درمیان کئی گھنٹوں تک مذاکرات ہوئے اور ملزمان کی رہائی کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا۔

قبل ازیں درجنوں مشتعل مظاہرین گردوارہ ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور گردوارہ جنم استھان کے باہر جمع ہوئے تھے اور وہاں دھرنا دیا تھا۔

مظاہرین سکھ لڑکی جگجیت کور سے مبینہ طور پر جبری مذہب تبدیلی کے بعد شادی کرنے والے احسان کے اہل خانہ کی قیادت میں گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر جمع ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ رواں برس 28 اگست کو ننکانہ پولیس اسٹیشن میں 6 افراد کے خلاف 19 سالہ لڑکی سے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کے الزام پر فرست انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:مبینہ جبری مذہب تبدیلی: پنجاب حکومت، سکھ برادری سے مذاکرات کرے گی

پولیس نے ملزمان کو تلاش کے بعد لاہور میں ڈھونڈ نکالا تھا اور ان میں سے ایک کو حراست میں لے لیا تھا جبکہ لڑکی کے اہل خانہ نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرادیا تھا۔

پولیس کی زیر حراست افراد کی رہائی کے لیے احسان کے اہل خانہ کے ہمراہ درجنوں افراد نے جمعہ کو احتجاج شروع کیا اور پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے گھر میں چھاپہ مارا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے احسان سمیت گھر کے کئی افراد کو حراست میں لے لیا جبکہ 9 جنوری کو عدالت میں اس حوالے سے سماعت بھی مقرر ہے۔

احسان کی بہن نے میڈیا کو بتایا کہ ‘پولیس نے آج ہمارے گھر میں چھاپہ مارا اور تشدد کے بعد میرے بھائی اور دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گھر میں موجود خواتین اور بچوں پر بھی تشدد کیا۔

احسان کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ پولیس عدالت میں شیڈول سماعت سے قبل ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ننکانہ اسمٰعیل کھرک کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ایک شہری کی جانب سے تنازع کے حوالے سے شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے مذکورہ خاندان کے الزامات پر کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا

پی ٹی آئی ننکانہ صاحب کے صدر پیر سرور شاہ اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں پولیس نے گرفتار تمام افراد کو رہا کردیا اور مظاہرین دھرنا ختم کرکے منتشر ہوگئے۔

یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے پاکستانی سکھ برادری کی 30 رکنی کمیٹی سے مذاکرات کے لیے 30 اگست 2019 کو صوبائی وزیر قانون راجا بشارت کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

لڑکی کے وکیل شیخ سلطان نے پولیس کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا تھا کہ جگجیت کور نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ رکھا گیا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جگجیت کور نے اسلام قبول کرنے کے بعد محمد آحسان سے شادی کی، جس کا نام ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں شامل ہے۔

شیخ سلطان نے مزید کہا کہ انہوں نے سکھ لڑکی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں ان کے اہلِ خانہ اور مقامی پولیس کے خلاف ’غیر قانونی طور پر ہراساں‘ کرنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں لڑکی نے عدالت میں ایک تحریری بیان بھی جمع کروایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا اور محمد احسان سے شادی کی۔

ایڈیشنل سیشن جج نے لڑکی کو بیان کے بعد دارلامان لاہور بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں