آئندہ برس گیس کی قلت دُگنی ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2020
گھریلو شعبہ توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے نسبتاً سستی گیس کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
گھریلو شعبہ توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے نسبتاً سستی گیس کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: وفاقی حکومت کا گیس کی قلت کے حوالے سے جاری تنازع میں کہنا ہے کہ اگر اسٹیک ہولڈرز بالخصوص صوبہ سندھ کے تعاون سے انفرااسٹرکچر کی رکاوٹیں دور نہ کی گئیں تو آئندہ برس یہ قلت دُگنی ہونے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں وزارت توانائی نے بتایا کہ مقامی سطح پر گیس کی پیداوار میں 7 فیصد کمی اور استعمال میں 5 فیصد اضافے کے باعث گیس کی قلت میں بڑھ رہی ہے جبکہ گزشتہ برس کے مقابلے میں طلب و رسد میں 12 فیصد کا فرق دیکھا گیا۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران گیس تلاش نہ ہونے کے سبب گیس کی پیداوار میں 7 فیصد کمی آئی جبکہ طلب میں 5 فیصد سالانہ اضافہ ہونے کا نتیجہ گیس کی قلت کی صورت میں نکل رہا ہے جبکہ دسمبر 2019 میں یہ قلت 2 سو 70 ایم ایم سی ایف ڈی(ملین کیوبک فیٹ روزانہ) تک جاپہنچی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے دوران گیس کی قلت میں 157 فیصد اضافے کا امکان

اس کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت نے اضافی ٹرمینل بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور نومبر 2019 میں 5 نئے پرائیویٹ ٹرمینل منظور کیے گئے جبکہ ان ٹرمینل سے ملک کے شمالی حصوں میں درآمد شدہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) پہنچانے کے لیے 12 سو ایم ایم سی ایف ڈی کی پائپ لائن کا کام بھی جلد شروع ہوگا۔

ذرائع کے مطابق مشیر خزانہ نے پیٹرولیم اور پاور ڈویژن کو پورے سال گیس کی فراہمی بہتر بنانے اور توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں فرق کے بارے میں بھی پوچھا اور اضافی بجلی اور قدرتی گیس کی کمی کو متوازن کرنے کے لیے نئے آئیڈیاز بھی مانگے۔

مزید پڑھیں: ایل این جی ٹرمنل میں خرابی کے باعث ملک بھر میں گیس کی قلت

اجلاس میں بتایا گیا کہ موسم سرما میں گیس کا استعمال پورے سال کے مقابلے دگنا ہوجاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گھریلو شعبہ توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے نسبتاً سستی گیس کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے۔

اجلاس میں وضاحت کی گئی کہ بجلی اور گیس کی اوسطاً قیمت 60 کی نسبت 40 ہے اور صارفین کی بڑی تعداد پکانے اور سردیوں میں حرارت کے لیے بجلی کے مقابلے گیس کا استعمال کرتی ہے۔

مزید یہ کہ گیس میں ایل این جی 16 سو روپے فی یونٹ اور مقامی گیس کی اوسط قیمت 7 سو 80 روپے فی یونٹ کے برخلاف 36 فیصد صارفین کو ایک سو 21 روپے فی یونٹ کے حساب سے گیس فراہم کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قیمتوں میں اضافے کے معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ہی گیس بحران شدید

اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آئندہ برس کراچی کے گھریلو صارفین کا گیس کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ گیس کی کھپت میں اس سال 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

علاوہ ازیں کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ گیس کی قلت پر قابو پانے اور اس کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے گیس اور بجلی دونوں سے پیدا ہونے والی توانائی استعمال کر کے 21-2020 کے منصوبے پر مستعدی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

anwer hussain Jan 09, 2020 11:25am
Poore Lyari men aaj 16 din he k gas nhn he, gas ki corruption kab khatam hogi?