لندن: برطانوی دارالعوام نے بریگزٹ معاہدے کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
دارالامرا سے منظوری کے بعد ملکہ برطانیہ معاہدے کی توثیق کریں گی — فائل فوٹو / اے پی
دارالامرا سے منظوری کے بعد ملکہ برطانیہ معاہدے کی توثیق کریں گی — فائل فوٹو / اے پی

برطانوی دارالعوام (ایوان زیریں) نے یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے بریگزٹ معاہدے کی منظوری دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بل کی منظوری کے بعد 31 جنوری کو برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

دارالعوام میں رائے شماری کے دوران بریگزٹ معاہدے کی حمایت میں 330 اور مخالفت میں 231 ووٹ ڈالے گئے۔

مزید پڑھیں: یورپی یونین اور برطانیہ میں طلاق، نان و نفقہ پر جھگڑا، کس کو کتنا خسارہ؟

بریگزٹ معاہدے کو اب برطانوی دارلامرا (ایوان بالا) میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد ملکہ برطانیہ معاہدے کی توثیق کریں گی اور ممکنہ طور پر برطانیہ 31 جنوری تک یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ 26 جون 2016 کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ کو کامیاب بنایا تھا تاہم یورپی یونین سے کس طرح نکلا جائے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی کہ بغیر معاہدے، یونین کو چھوڑنے کا ڈر خوف برطانوی عوام اور سیاستدانوں کو ستانے لگا۔

بریگزٹ کا معاملہ کئی برس سے زیر بحث تھا اور بریگزٹ کی منظوری میں ناکامی پر برطانوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین،برطانیہ بریگزٹ معاہدے کیلئے ‘تعمیری’ مذاکرات میں تیزی لانے پر متفق

مستقل ناکامی کے بعد تھریسا مے نے گزشتہ برس 24 مئی 2019 کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اسی سال 23 جولائی کو برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن اگلے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے آخری مرحلے میں کنزریٹو پارٹی کے قائد اور برطانیہ کے اگلے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں