پی اے سی نے اسکروٹنی کے بغیر دفاعی خریداری پر اعتراضات دور کردیے

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
آڈٹ رپورٹ میں 24 ایف- 16 طیاروں کی اپگریڈیشن میں بھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی—تصویر: فائل اے ایف پی
آڈٹ رپورٹ میں 24 ایف- 16 طیاروں کی اپگریڈیشن میں بھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی—تصویر: فائل اے ایف پی

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے نومنتخب چیئرمین رانا تنویر حسین نے آرمی، نیوی اور ایئرفورس کی تمام پروکیورمنٹس (خریداری) پر آڈیٹر جنرل کے 14 اعتراضات دور کردیے۔

رانا تنویر حسین نے وزارت دفاعی پیداوار کے اکاؤنٹس کے آڈٹ برائے سال 13-2012 کے پیراگرافس کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیے بغیر ہی انہیں کلیئر کردیا۔

چیئرمین پی اے سی رانا تنویر کی جانب سے دکھائی گئی اس نرمی سے ان کی اپنی جماعت کے کچھ اراکین پریشان نظر آئے اور سابق اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد بازی میں آڈٹ پیرا کے تصفیہ پر اختلاف رائے کا نوٹ لکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نور عالم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید نوید قمر نے بغیر مطالعہ کیے آڈٹ پیراز کے تصفیے کو نامنظور کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا

تاہم رانا تنویر حسین نے اس انداز میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد وضع کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا، جس کے نتیجے میں آڈٹ پر اعتراضات اور ضوابط کی پیروی کیے بغیر ہتھیاروں کی خریداری کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 2 حاضر سروس افسران کی جدوجہد کے بعد آڈٹ پیرا کی تشکیل ہوئی۔

اس ضمن قومی اسمبلی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ اس قسم کے قواعد نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی بڑی تعداد کو جیل پہنچایا۔

خیال رہے کہ سیکریٹری خزانہ ریگولیٹری باڈی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرتا ہے، اس بارے میں سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ہم قواعد پر نظر ثانی کررہے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت خزانہ قواعد بہتر بنانے کے لیے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ارسال کردہ تجویز کا جائزہ لے رہی ہے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی جگہ رانا تنویر چیئرمین پی اے سی نامزد

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ آڈٹ رپورٹ میں اعتراض کیا گیا تھا کہ نیول ہیڈ کوارٹرز نے چینی کمپنی سے کشتیوں کے لیے سینسر اور ہتھیار خریدنے کے لیے پروکیورمنٹ کے پرپوزل پر مذاکرات کیے تھے۔

ابتدا میں کمپنی نے ہر سسٹم کے لیے ایک کروڑ 39 لاکھ ڈالر کی قیمت پر سینسرز فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی چونکہ قیمت کافی زیادہ تھی اس لیے نیوی نے کمپنی کے ساتھ بات چیت کی جس کے بعد کمپنی خصوصیات میں کچھ تبدیلیاں کر کے مذکورہ قیمت کو کم کر کے ایک کروڑ 3 لاکھ ڈالر کرنے پر رضا مند ہوگئی تھی۔

اس حوالے سے کیے گئے اعتراض کے مطابق ٹھیکہ تبدیل نہیں ہوسکتا تھا تاہم آڈٹ نے اس اعتراض کو حل کرنے کا کام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے چھوڑدیا تھا۔

علاوہ ازیں آڈٹ رپورٹ میں 24 ایف-16 طیاروں کی اپگریڈیشن میں بھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’رانا تنویر کو چیئرمین پی اے سی نامزد کرنے پر اپوزیشن خود منتشر ہے‘

اس کے ساتھ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی ذکر تھا کہ 'ہیوی اسنائپر رائفلز کی خریداری کے ٹھیکے کے مطابق سپلائیر بینک ضمانت میں توسیع کا پابند ہوگا تاکہ کارکردگی بہتر نہ ہونے کی صورت میں اسی ضبط کیا جائے‘۔

تاہم رقم کی ادائیگی کا عمل وقت پر نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں بینک کی دی ہوئی ضمانت کی مدت ختم ہوگئی اور اب بینک اس ضمانت کی رقم دینے سے انکاری ہے جس کے نتیجے میں 6 کروڑ 56 لاکھ 30 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔

آڈٹ میں اس کوتاہی کا ذمہ دار ڈائریکٹوریٹ جنرل پروکیورمنٹ (آرمی) اور ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل کو قرار دیا گیا تاہم ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل نے محکمہ جاتی اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے اس ضمن میں کارروائی کی گئی ہے، اس کے ساتھ آڈٹ نے تجویز دی تھی کہ پیرا کا بھی تصفیہ کیا جاسکتا ہے۔


یہ خبر 10 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں