وفاق نے صوبے سے نکلنے والی گیس پر سندھ کا دعویٰ دوبارہ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2020
حکومت تمام اشیا مثلاً پیٹرول، بجلی، گیس اور گندم کے حوالے سے یکساں خریداری اور اجرا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
حکومت تمام اشیا مثلاً پیٹرول، بجلی، گیس اور گندم کے حوالے سے یکساں خریداری اور اجرا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی ہے کہ کسی ایک صوبے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام عوام کا حق ہے کہ وہ قدرتی گیس استعمال کریں کیوں کہ وہی اس کے مالک ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کہ صوبے کو گیس کا حصہ نہیں دیا جارہا کے جواب میں وزارت توانائی (پیٹرولیم) ڈویژن نے اس بات پر زور دیا کہ ’پہلا حقِ استعمال (کسی ایک صوبے نہیں) پاکستان کے شہریوں کا ہے کیوں کہ وسائل کے اصل مالکان شہری ہیں‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ گھریلو صارفین کے علاوہ گیس کا کوئی بھی استعمال آئین کی دفعہ 158 کے تحت وفاق اور صوبے کے درمیان خوش اسلوبی سے طے کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مراد علی شاہ کا صوبے کے اہم مسائل پر وزیراعظم کو خط

اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ ’حکومت تمام اشیا مثلاً پیٹرول، بجلی، گیس اور گندم کے حوالے سے یکساں خریداری اور اجرا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘۔

پیٹرولیم ڈویژن کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ کی جانب سے صوبے کو درپیش گیس کی ضرورت پورا کرنے کے مطالبے کو مسترد نہیں کیا گیا (تاہم) اس سے قبل اس طرح کی کوئی تجویز زیرغور نہیں آئی‘۔

اس کے ساتھ ہی جواب میں دعویٰ بھی کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے 23 دسمبر کو ہوئے اجلاس میں معاون خصوصی برائے پیٹرولیم اور وزیراعلیٰ سندھ نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کو قدرتی گیس کے زمرے میں لانے اور اس کے نتیجے میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کو اس کی قیمت مقرر کرنے کے اختیار پر اتفاق کیا تھا۔

یہ بھی دیکھیں: 'حکومت سندھ نے اپنی من مانی کے باعث گیس کا بحران پیدا کیا ہے'

پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ موجودہ دور حکومت میں سندھ میں پیدا ہونے والی کوئی بھی گیس سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کو تفویض کی جاتی ہے اور معاون خصوصی کی آئین کی دفعہ 158 کی تشریح کا غلط مطلب لیا گیا۔

جواب میں بتایا گیا کہ سندھ اس وقت تقریباً 2 ہزار 2 سو 43 ملین کیوبک فٹ روزانہ (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس پیدا کررہا ہے جس میں سے 12 سے 13 سو ایم ایم سی ایف ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی کے سسٹم میں دی جاتی ہے جبکہ 7 سو ایم ایم سی ایف ڈی براہ راست صوبے کے کھاد اور توانائی سیکٹر کو فراہم کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کو فراہم کی جانے والی گیس کے بعد باقی 4 سو سے 5 سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس سندھ کو دی جاتی ہے اور اگر آرٹیکل 158 کی اس تشریح کا اطلاق کیا جائے جو سندھ کرتا ہے تو صوبہ 2 سال میں گیس سے محروم ہو جائے گا‘۔

واضح رہے کہ چند روز قبل صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سی سی آئی اجلاس میں طے پانی والے معاملات کے حوالے سے وفاقی کے غلط بیان پر وزیراعظم کے نام ایک ’احتجاجی خط' لکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں