مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ، حکومت سے جواب طلب

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2020
مریم نواز نے والد کی تیمارداری کے سلسلے میں بیرون ملک جانے کے لیے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی تھی— فائل فوٹو: عدنان شیخ
مریم نواز نے والد کی تیمارداری کے سلسلے میں بیرون ملک جانے کے لیے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی تھی— فائل فوٹو: عدنان شیخ

لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے معاملے پر حکومت کی جانب سے تاخیر پر وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کر لیا۔

بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 21 دسمبر کو مریم نواز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان کا پاسپورٹ واپس کیا جائے اور حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کا نام دوسری مرتبہ ای سی ایل میں ڈال دیا گیا

مذکور بینچ کو بتایا گا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 9 دسمبر کو حکومت کی نظرثانی کمیٹی کو 7 روز میں قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اب ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لہٰذا فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اب تک اس معاملے پر کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا اور حکومت سے سوال کیا کہ فیصلہ کرنے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟

عدالت نے حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے 21 جنوری تک سماعت ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو صحت سے متعلق رپورٹس 48گھنٹے میں فراہم کرنے کی ہدایت

خیال رہے کہ نیب نے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس فائل کرتے ہوئے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے تھے۔

بعدازاں طبی بنیادوں پر نواز شریف کو گزشتہ سال نومبر میں بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی تھی لیکن ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے سبب مریم نواز ان کے ہمراہ نہیں جا سکی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال نومبر میں چوہدری شوگر ملز کے کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو ضمانت دے دی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ وہ عدالت میں اپنا پاسپورٹ جمع کرائیں گی۔

9 دسمبر کو مریم نواز نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی لیکن ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے حکومت کو معاملے پر 7 دن میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'کیا مریم نواز ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر والد کی تیمار داری کریں گی'

حکومت کی جانب سے عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر انہوں نے 21 دسمبر کو ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ انہیں ایک مرتبہ 6 ماہ کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔

مریم نواز نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے بیمار والد کی تیمارداری کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی ہیں۔

البتہ گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے سے مریم نواز کو آگاہ کردیا تھا۔

مریم نواز کی درخواست

خیال رہے کہ ہفتہ 7 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر 6 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مریم نواز نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کے توسط سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین اور ڈی جی نیب لاہور کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں مریم نواز کی جانب سے موقف اپنایا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے باوجود بیمار والدہ کو چھوڑ کر بیرون ملک سے والد کے ساتھ واپس آئی لیکن میرا موقف سنے بغیر ہی نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز ضمانت پر رہا

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا میمورنڈرم غیر قانونی اور آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا میمورنڈم اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

مریم نواز نے موقف اپنایا تھا کہ والدہ کی وفات کے بعد والد نواز شریف کی دیکھ بھال وہ ہی کرتی رہی ہیں اور وہ بیماری میں مجھ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں مریم نواز نے پاسپورٹ واپس لینے کے لیے بھی لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی، جہاں لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کی ضمانت منظور کرنے کے بعد انہیں پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

مریم نواز کی ضمانت

خیال رہے کہ 8 اگست 2019 کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو ان کے کزن یوسف عباس کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں 25 ستمبر2019 کو احتساب عدالت نے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے 30 ستمبر کو اسی کیس میں ضمانت بعد ازگرفتاری کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

تاہم اکتوبر کے اواخر میں ان کے والد نواز شریف کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی جس کے باعث انہوں نے 24 اکتوبر کو بنیادی حقوق اور انسانی بنیادوں پر فوری رہائی کے لیے متفرق درخواست دائر کردی تھی۔

اس درخواست پر سماعت میں نیب کے ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل نے مریم نواز کی انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ انتہائی غیرمعمولی حالات میں ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو علاج کیلئے 16 دسمبر کو امریکا منتقل کیے جانے کا امکان

انہوں نے کہا تھا کہ مریم نواز کا کیس انتہائی غیرمعمولی حالت میں نہیں آتا۔

تاہم عدالت عالیہ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن انہیں اپنا پاسپورٹ اور ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔

بعد ازاں نیب نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کو دی گئی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں