کئی بار ایسا ہوتا ہے بلکہ متعدد افراد سر پر سفید بال نظر آنے پر اسے کھینچ کر توڑ دیتے ہیں، مگر کیا ایسا کرنا ٹھیک ہوتا ہے؟

ویسے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کا اشتیاق بھی متعدد افراد کو ہوتا ہے، خصوصاً ان کو جو بالوں کی سفیدی کو رنگ میں چھپاتے ہیں۔

ویسے یہ جان لیں کہ بالوں کا سفید ہونا یا قدرتی رنگ ختم ہوکر سفید ہوجانا ایک قدرتی عمل ہے جس کا سامنا عمر بڑھنے پر ہر ایک کو ہوتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے مطابق زندگی کے آغاز میں بالوں کی رنگت سیاہ، سرخ یا سنہری ہوتی ہے مگر عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کی جڑوں میں رنگ بنانے کا عمل پہلے جیسا فعال نہیں رہتا اور بالوں کی رنگت میں تبدیلی قدرتی طور پر ہوتی ہے، یعنی سیاہ بال کی جگہ نیچے سے سفید بال نمودار ہوجاتے ہیں۔

اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ 35 سال کی عمر کے بعد جو نئے بال اگتے ہیں ان میں سفیدی کی شرح غالب ہو اور اس آغاز کے لیے جینز کردار ادا کرتے ہیں۔

یعنی آسان الفاظ میں عمر کی چوتھی دہائی کے دوران اگر بال سفید ہونے لگتے ہیں تو بیشتر افراد میں یہ قبل از وقت نہیں بلکہ عمر کے لحاظ سے قدرتی عمل ہوتا ہے۔

زیادہ تر افراد کے بال عمر بڑھنے سے ہی سفید ہوتے ہیں مگر کئی بار یہ سفیدی کسی عارضے کی جانب اشارہ بھی ہوتی ہے خصوصاً اگر یہ جوانی میں ہی سامنے آجائے، جیسے جسم میں وٹامن بی 12 کی کمی، تھائی رائیڈ امراض، امراض قلب اور ہڈیوں کی کمزوری سے بھی یہ بھی خطرہ بڑھتا ہے مگر اس کی وجہ تاحال واضح نہیں، جبکہ تمباکو نوشی سے بھی جوانی میں ہی بالوں میں چاندی ابھر آنے کا امکان 4 گنا بڑھ جاتا ہے۔

اب اگر کوئی سفید بال کو کھینچ کر توڑ دیتا ہے تو اس کی جڑ کو لازمی دیکھے یعنی اگر نیچے سے سفید ہے تو ٹھیک مگر سرخ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خون کی سپلائی والے حصے سے بال کو کھینچا ہے اور ایسا ہونے پر اس کے دوبارہ اگنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر بال کھینچ کر توڑ دیا ہے تو اس کی جگہ لینے والا بال ہوسکتا ہے کہ جلد کے اندر ہی رہ جائے جس سے بھی انفیکشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔

آسان الفاظ میں اگر آپ کسی بال کو کھینچ کر توڑتے ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ وہ واپس نہیں اگے گا اور اس کو عادت بنالینے کا نتیجہ بالوں سے محرومی کی شرح کو تیز کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

ویسے تو اچھا حل یہی ہے کہ بال جیسے ہیں، ویسے ہی چھوڑ دیں، تاہم سفیدی پسند نہیں تو ان کو ڈائی کیا جاسکتا ہے یا دیگر گھریلو ٹوٹکے بھی آزمائے جاسکتے ہیں جو کافی حد تک موثر ہی ثابت ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں