گندم کا بحران: عوام کا 'مذاق اڑانے' پر اپوزیشن کا حکومت سے معافی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
اپوزیشن اراکین نے شیخ رشید کے بیان پر حکومت پر تنقید کی — فائل فوٹو / اے پی پی
اپوزیشن اراکین نے شیخ رشید کے بیان پر حکومت پر تنقید کی — فائل فوٹو / اے پی پی

اراکین سینیٹ نے ملک میں گندم کے بحران اور ضروری اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر حکومت پر تنقید جبکہ وزرا کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'عوام کا مذاق' اڑانے کے مترداف قرار دیا۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو دنیا میں گندم کا آٹھواں سب سے بڑا پیداوار ہے، لیکن اس کے باوجود عوام روٹی کے لیے پریشان ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'افسوسناک بات یہ ہے کہ اتنے اہم معالے پر ایک وفاقی وزیر لوگوں کے درمیان کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ لوگ نومبر اور دسمبر میں زیادہ کھاتے ہیں جس کے باعث گندم کا بحران ہوا ہے، کیا ان لوگوں کے دل پتھر کے ہیں؟ وزیر نے پاکستانی عوام کا مذاق اڑایا ہے۔'

سراج الحق نے یہ بات وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی ہفتہ کو کی گئی پریس کانفرنس کے حوالے سے کی جس میں گندم کے بحران سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'نومبر اور دسمبر میں لوگوں کے خوراک بڑھ جاتی ہے۔'

ان کی اس بات پر قہقہے لگے جس میں انہوں نے کہا کہ 'یہ مذاق نہیں ہے، اس حوالے سے تحقیق موجود ہے۔'

سینیٹ اجلاس کے دوران سراج الحق اور دیگر سینیٹرز نے شیخ رشید کے بیان پر حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ 'دنیا یہ کہہ کہ ہمارا مذاق اڑا رہی ہے کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے اور پاکستان میں لوگ آٹے کے تھیلے کے لیے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔'

یہ بھی پڑھیں: ملک میں آٹے کا بحران، 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری

پشونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس بحران کا کون ذمہ دار ہے، سب سے زیادہ قصوروار عوام دشمن حکومت اور وہ ہیں جنہوں نے یہ حکومت عوام پر مسلط کی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا جس کے باعث یہ عوام کو مسلسل سزا دے رہے ہیں۔'

عثمان کاکڑ نے حکومت پر مزید برستے ہوئے کہا کہ 'اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اوسطاً 13 سے 15 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جبکہ کئی اشیا 200 فیصد زائد قیمتوں میں فروخت ہو رہی ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئٹہ میں 20 روپے میں ملنے والی روٹی اب 40 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔'

پی کے میپ کے سینیٹر نے کا کہ 'اس کے بعد حکومتی وزرا عوام کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف عوام سے معافی مانگے جانے تک کھڑا ہونا چاہیے۔'

مزید پڑھیں: بدھ سے آٹا 45 روپے کلو میں دستیاب ہوگا، وزیر زراعت سندھ

گندم درآمد کرنے کی منظوری

قبل ازیں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بغیر ریگولیٹری ڈیوٹی کے 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں 31 مارچ تک گندم کی درآمد کی اجازت دی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت اور پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اور سروسز کارپوریشن (پاسکو) کو ہدایت کی گئی ہے ملک بھر میں جاری قلت کو ختم کرنے کے لیے ذخیرہ کی گئی گندم کو جاری کریں۔

واضح رہے کہ ملک میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور مختلف صوبوں میں کہیں آٹا دستیاب نہیں اور کہیں اس کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے اور رپورٹس کے مطابق 70 روپے کلو تک آٹا فروخت کیا جارہا۔

عوامی سطح کے انتہائی اہم معاملے پر جہاں ایک جانب حکومت بحران ختم ہونے کے دعوے کیے ہیں تو وہیں حکومت اور اپوزیشن کا ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں آٹے کا شدید بحران، ارباب اختیار ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگے

گزشتہ روز جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے سندھ میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیا گیا تو وہی سندھ حکومت نے بھی معاملے میں الزام تراشی کرتے ہوئے وزیراعظم کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) نے الزام لگایا تھا کہ گندم کی قلت کے باوجود اسے برآمد کیا گیا۔

مزید برآں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں