سیہون: خاتون کے جسم پر کسی تشدد یا خراش کا نشان نہیں، طبی رپورٹ

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
رپورٹ میں  کہا گیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں—شٹر اسٹاک
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں—شٹر اسٹاک

سیہون میں مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کی ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق خاتون کے جسم پر کسی تشدد یا خراش کا نشان موجود نہیں تھا تاہم کیمیکل معائنہ کے بعد ہی زیادتی کی تصدیق ہوسکے گی۔

سیہون پولیس کو موصول طبی رپورٹ میں کہا گیا کہ '18 سالہ لڑکی کے جسم پر کسی تشدد یا خراش کا کوئی نشانہ نہیں ملا'۔

طبی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'لڑکی کنواری نہیں تھی تاہم طبی معائنے میں یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ لڑکی کو (عدالت میں) ریپ کیا گیا یا نہیں'۔

مزید پڑھیں: سیہون: چیمبر میں لڑکی کا 'ریپ' کرنے والا جوڈیشل مجسٹریٹ معطل

اس ضمن میں مزید بتایا گیا کہ 'کراچی میں کیمیکل معائنہ کے بعد ہی اس امر کی تصدیق ہوسکے گی'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں'۔

علاوہ ازیں سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر معین الدین صدیقی نے سوشل میڈیا پر رپورٹ میں ردوبدل سے متعلق باتوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کی ابتدائی رپورٹ میرٹ پر جاری گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاملہ میرٹ اور قانون کے مطابق حل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ریپ کا شکار لڑکی کو عدالت جاتے ہوئے جلادیا گیا

ڈاکٹر معین الدین نے بتایا کہ لڑکی کی ابتدائی طبی رپورٹ شفاف نمونے کی بنیاد پر جاری کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 'طبی رپورٹ کی تیاری میں کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی کوئی دباؤ برداشت کیا جائے گا'۔

ڈائریکٹر سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ نے کہا کہ ہسپتال انتظامیہ کو لڑکی کا میڈیکل کرنے کے لیے مراسلہ لکھا گیا جس کے بعد ہی لڑکی کا طبی معائنہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سیہون میں تعینات جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے مبینہ طور پر شکایت گزار خاتون کا ریپ کرنے پر انہیں معطل کردیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جوڈیشل مجسٹریٹ کو معطل کر کے فوری طور پر ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت: 22 سالہ لڑکی کا ریپ کے بعد قتل، لاش جلادی گئی

ذرائع کا کہنا تھا کہ گھر چھوڑ کر پسند کی شادی کے خواہشمند جوڑے کو پولیس نے 13 جنوری کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ سیہون پولیس میں شکایت درج کرانے والی لڑکی کو مجسٹریٹ نے اپنے چیمبر میں بلا کر وہاں موجود تمام اسٹاف اور خواتین پولیس اہلکاروں کو جانے کا کہا اور پھر لڑکی کا ریپ کیا۔

ذرائع کے مطابق لڑکی کو طبی جانچ کے لیے سیہون میں سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لایا گیا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جامشورو کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے معاملے کی ابتدائی تحقیقات کیں اور اس بارے میں ہائی کورٹ کو رپورٹ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں