سعودی عرب نے ایمازون کے سی ای او کا فون ہیک کرنے کے الزامات مسترد کردیے

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2020
دی گارجین کے مطابق اس ہیکنگ کی وجہ جیف بیزوز کی واشنگٹن پوسٹ کی ملکیت ہوسکتی ہے — فائل فوٹو:رائٹرز
دی گارجین کے مطابق اس ہیکنگ کی وجہ جیف بیزوز کی واشنگٹن پوسٹ کی ملکیت ہوسکتی ہے — فائل فوٹو:رائٹرز

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایمازون ڈاٹ کام انکارپوریشن کے بانی جیف بیزوز کے فون کی ہیکنگ میں ریاست کے ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس مضحکہ خیز ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی اخبار دی گارجین نے گزشتہ روز ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ شائع کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جیف بیزوز کا فون 2018 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذاتی واٹس ایپ اکاؤنٹ سے ملنے والے پیغام کے بعد ہیک کرلیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد کے زیر استعمال نمبر سے بھیجے گئے انکرپٹڈ پیغام میں ایسی فائلز بھیجی گئیں جس سے جیف بیزوز کے فون سے چند گھنٹوں میں بڑی تعداد میں ڈیٹا چوری کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے بتایا کہ 2019 میں جیف بیزوز کے آئی فون کے فرانزک معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک ایم پی 4 ویڈیو فائل کے ذریعے یکم مئی 2018 کو اُن کا فون ہیک کیا گیا تھا، یہ ویڈیو فائل جس واٹس ایپ اکاؤنٹ سے بھیجی گئی تھی وہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے ذاتی استعمال میں تھا۔

محمد بن سلمان اور جیف بیزوز نے ہیکنگ کے واقعے سے ایک مہینے قبل ہی ایک دوسرے کو اپنے فون نمبر دیے تھے۔ ایم پی 4 ویڈیو فائل کے آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایمازون کے بانی کے فون سے ڈیٹا منتقل ہونا شروع ہو گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد

مسٹر بیزوز کے فون کا فرانزک معائنہ کرنے والے ماہرین کے مطابق سعودی ولی عہد نے اس کے بعد جیف بیزوز کو واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے جس میں مبینہ طور پر انہوں نے بیزوز کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسی معلومات پر بات کی جو خفیہ تھیں۔

اس واقعے کے فوری بعد جیف بیزوز کی ذاتی معلومات امریکی اخبار ’دی نیشنل انکوائرر‘ کو لیک کی گئیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال فروری میں دی نیشنل انکوائرر نے بیزوز اور ان کی سابق گرل فرینڈ لورن سانچیز کے درمیان بھیجے گئے ذاتی پیغامات شائع کر دیے تھے جس کے بعد جیف بیزوز نے امریکی اخبار پر بلیک میل کرنے کا الزام لگایا تھا۔

اخبار نے سعودی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ہیکنگ کی وجہ جیف بیزوز کی واشنگٹن پوسٹ کی ملکیت ہوسکتی ہے جہاں سعودی عرب کے ناقد مقتول صحافی جمال خاشقجی کے آرٹیکلز شائع ہوتے تھے۔

ایمازون کے چیف ایگزیکٹو اور سعودی حکومت کے درمیان گزشتہ سال کے آغاز میں تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب انہوں نے خاشقجی کے قتل پر واشنگٹن پوسٹ کی خبروں پر سعودی عرب کی ناراضی کا اشارہ دیا تھا۔

در گارجین کا مزید کہنا تھا کہ جیف بیزوز کے فون کے فرانزک جائزے کی رپورٹ کو اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اگنیس کالامارد نے بھی دیکھا جنہیں سعودی عرب سے معاملے پر وضاحت طلب کرنے کے لیے کافی شواہد ملے ہیں۔

انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی بھی تحقیقات کی تھیں اور انہیں سعودی ولی عہد اور ریاستی انتطامیہ کے دیگر اراکین کے خلاف 'قابل اعتماد' شواہد ملے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ نے سعودی ولی عہد کو خاشقجی قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا

جیف بیزوز کے سیکیورٹی چیف کا اس وقت کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ان کے فون تک رسائی حاصل کی اور نجی معلومات حاصل کیں جن میں ان کے اور سابق ٹی وی اینکر کے درمیان میسجز بھی شامل تھے۔

تاہم سعودی عرب نے کہا کہ سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس سمیت جیف بیزوز کی فون ہیکنگ سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

امریکا میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'حالیہ میڈیا رپورٹس جس میں کہا گیا کہ سعودی عرب جیف بیزوز کے فون کی ہیکنگ میں ملوث ہے، مضحکہ خیز ہیں، ہم ان دعوؤں پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں'۔

دوسری جانب ایمازون نے معاملے پر رائے دینے سے انکار کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں