سپریم کورٹ: وزارت دفاع سابق کرنل انعام الرحیم کی مشروط رہائی پر رضامند

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2020
سپریم کورٹ میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حراست میں لیے گئے سابق کرنل ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم بیمار ہیں اور انہیں بار بار ہسپتال لے جانا پڑتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم ایڈووکیٹ کو رہا کرنے کو تیار ہیں اگر ان کے وکیل ان کا پاسپورٹ جمع کرا دیتے ہیں اور لیپ ٹاپ کا پاسورڈ بتا دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم اس بات پر بھی راضی ہوں کہ وہ راولپنڈی و اسلام آباد سے باہر نہیں جائیں گے جبکہ تحقیقات میں بھی تعاون کریں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ معطل کردیا

اس پر انعام الرحیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل ایک ماہ 18 دن سے حراست میں ہیں لیکن ساتھ ہی ان کی رہائی کے لیے شرائط کو ماننے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ کرنل انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی حکومتی اپیل کو میرٹ پر سنا جائے گا، جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

سابق کرنل انعام الرحیم کا معاملہ

خیال رہے کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں عدالتوں میں دائر کر رکھی تھیں۔

اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں اغوا کیا۔

جس کے بعد ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف ان کے اہل خانہ نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی۔

20 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اور داخلہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی موجودگی کے حوالے سے بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

وزارت داخلہ نے ان کی موجودگی سے انکار کیا تھا جبکہ وزارت دفاع کے ایک نمائندے نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف کو بتایا تھا کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔

بعدازاں 9 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم وزارت دفاع نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا عابد کے ذریعے ایک انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

جس پر وفاقی حکومت نے 11 جنوری کو سابق فوجی افسر ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے مذکورہ الزامات کے تحت ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

دفاع اور داخلہ کے سیکریٹریز کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ تفتیش کے دوران ملزم کی رہائی کے باعث سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات متاثر ہوں گی۔

جس کے بعد 14 جنوری کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ (راولپنڈی بینچ) کی جانب سے وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کی حراست میں موجود وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کا دیا گیا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

علاوہ ازیں اسی سماعت کے دوران عدالت کو اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کے پاس جوہری ہتھیاروں، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور کچھ لوگوں کے حوالے سے معلومات تھیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا تھا کہ آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ ان کے پاس معلومات ہیں جو انہوں نے دشمن سے شئیر کیں؟، آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ کرنل انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی کرنل(ر) انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں، ان کے خلاف ابھی تحقیقات چل رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں