بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت قانون پر عملدرآمد روکنے کی درخواست مسترد کردی

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2020
بھارتی سپریم کورٹ نے قانون مخالف درخواستوں کا جواب دینے کیلئے 4ماہ کا وقت دے دیا— فاےئل فوٹو: رائٹرز
بھارتی سپریم کورٹ نے قانون مخالف درخواستوں کا جواب دینے کیلئے 4ماہ کا وقت دے دیا— فاےئل فوٹو: رائٹرز

بھارتی سپریم کورٹ نے نئے شہریت قانون پر عملدرآمد روکنے کے مطالبے کو مسترد اور حکومت کو مزید دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا پانچ رکنی بینچ تمام تر اعتراضات کا جائزہ لے گا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس میں مسلمانوں سے تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس پر اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے 144 درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم عدالت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ان درخواستوں کا جواب دینے کے لیے 4ہفتوں کا وقت دے دیا ہے۔

مزید پڑھیں: متنازع شہریت قانون فنڈز دینے والے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کی چال ہے،ممتا بینرجی

دسمبر میں پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 10جنوری کو یہ بل قانون بن گیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی 6مذہبی اقلیتوں کو بھارت میں پناہ کا حق حاصل ہو گیا تھا تاہم ان چھ مذاہب کی فہرست میں مسلمان شامل نہیں۔

ماہرین اور ناقدین نے اس قانون سے مسلمانوں کے اخراج کے فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت قانون بنانا بھارت کے سیکولر تشخص کی نفی ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں، مسلمان جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ طلبا کے گروپس نے بھی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس قانون پر معاملہ عدالت سے حل ہونے تک عملدرآمد روکنے کی درخواست دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں کنہیا کمار کے ترانے کی گونج

تاہم تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس اروند بوبڈے نے کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت میں کہا کہ پانچ ججوں کا آئینی بینچ ہی اس معاملے پر فیصلہ کر سکتا ہے اور اس دوران حکومت کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے مزید وقت دے دیا۔

چیف جسٹس نے حکومت کے وکیل کو کہا کہ ہم تمام درخواستوں پر جواب جمع کرانے کے لیے آپ کو 4ہفتوں کا وقت دیتے ہیں اور عندیہ دیا کہ مقدمے کی اگلی سماعت فروری کے اواخر میں ہو گی۔

اس قانون کی حمایت میں کمر بستہ حکومت کا موقف ہے کہ اس قانون کے ذریعے ہندو، سکھ اور عیسائیوں جیسی مذہبی اقلیتوں کو فائدہ ہو گا کیونکہ انہیں مسلم اکثریت ملکوں میں متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ ماہ احتجاج کا گڑھ رہنے والے بھارتی ریاست آسام کی طلبا تنظیم نے اس معاملے پر اپوزیشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

مزیدپڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکریٹری لورن جیوتی گگوئی نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوری طریقے سے عدم تشدد پر مبنی احتجاج کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ ماہ بننے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی اس قانون کے خلاف مضبوط آواز بن کر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی نافذ ہوگا۔

بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اور مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت ایکٹ پر عملدرآمد کا نوٹیفکیشن جاری

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں