ملکہ الزبتھ دوم نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2020
یورپی یونین سے باضابطہ مذاکرات مارچ میں متوقع ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی
یورپی یونین سے باضابطہ مذاکرات مارچ میں متوقع ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے ملک کی یورپی یونین سے علیحدگی کی باضابطہ منظوری دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق توقع ہے کہ برسلز میں یورپی یونین کے دو اعلیٰ عہدیدار علیحدگی کے معاہدے پر دستخط کریں گے اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی آئندہ چند روز میں معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔

مزید پڑھیں: ‘بریگزٹ میں توسیع مانگنے سے بہتر ہے کھائی میں گر کر مر جاؤں‘

برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے انخلا کے بل کی توثیق کے بعد بورس جانسن نے کہا تھا 'بعض اوقات ایسا لگتا تھا کہ ہم کبھی بھی بریگزٹ کی لائن عبور نہیں کرسکیں گے لیکن ہم نے ایسا کر دکھایا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اب ہم گزشتہ 3 برس کی تلخیاں اور تقسیم کو پیچھے ڈال سکتے ہیں اور ایک روشن، پُرجوش مستقبل کی فراہمی پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں'۔

بورس جانسن 31 جنوری کو یادگاری سکے جاری اور کابینہ کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرکے اپنی فتح کا جشن منائیں گے۔

برطانوی وزیراعظم ان شرائط کی وضاحت کریں گے جس کے تحت برطانیہ دیگر 27 یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرے گا۔

یورپی یونین سے باضابطہ مذاکرات مارچ میں متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: بریگزٹ میں تاخیر کیلئے ووٹنگ ڈیلز مسترد ہونے سے مشروط

دوسری جانب بورس جانسن نے یورپی یونین کے دلائل کو مسترد کردیا کہ جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے سال کے اختتام پر مذاکرات کی آخری تاریخ بہت کم ہے۔

علاوہ ازیں برطانوی حکومت بریگزٹ کے بعد سے ماحولیاتی معیارات اور مزدوروں کے حقوق جیسے حساس امور پر اپنے قوانین وضع کرنے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔

یورپی سنٹرل بینک کی سربراہ کرسٹین لگارڈ نے کہا کہ بلاک کا مالیاتی نظام اگلے مرحلے کے لیے تیار ہے۔

واضح رہے کہ برطانیہ گزشتہ کئی برس سے یورپی ممالک سے علیحدگی کی کوشش کر رہا تھا اور اس عرصے کے دوران متعدد سیاسی نشیب و فراز آئے جس میں قابل ذکر سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا استعفیٰ تھا۔

تھریسامے نے 24 مئی 2019 کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

برطانوی وزیراعظم تھریسامے جو یورپی یونین کی رکنیت کی حامی رہی ہیں، وہ 2016 میں بریگزٹ ووٹ کے بعد وزیراعظم بنی تھیں۔

جس کے بعد بورس جونسن نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ ’ہم ملک کو متحرک کرنے جارہے ہیں، ہم 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائیں گے اور اس سلسلے میں ہم تمام مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے‘۔

بورس جانسن نے کہا تھا کہ ہم بہتر تعلیم، بہتر انفراسٹرکچر، مزید پولیس کے ذریعے خود اعتمادی کے فقدان اور منفی تاثر کا خاتمہ کریں گے۔

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔

جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدے میں ناکامی حکومت گرا سکتی ہے، برطانوی وزیراعظم

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں