بی بی سی کا نیوز روم سے 450 ملازمین فارغ کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
بی بی سی کا کہنا تھا کہ وہ نشریات کے روایتی طریقوں پر بہت زیادہ اخراجات کررہے ہیں—فائل فوٹوؒ رائٹرز
بی بی سی کا کہنا تھا کہ وہ نشریات کے روایتی طریقوں پر بہت زیادہ اخراجات کررہے ہیں—فائل فوٹوؒ رائٹرز

برطانوی نشریاتی ادارے برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) نے اپنے بچت اہداف کو حاصل کرنے اور ’ناظرین کی ضروریات میں تبدیلیوں‘ کو اپنانے کے لیے اپنے نیوز روم سے 450 ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ملازمین کی تعداد میں مذکورہ کمی کے اعلان سے ایک ہفتہ قبل ہی بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹونی ہال نے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا جبکہ کارپوریشن کو یکساں معاوضے کے مطالبات اور مستقبل کے فنڈنگ ماڈلز کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔

ادارے کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز فرین انس ورتھ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’بی بی سی کو سامعین کی جانب سے ہمارے استعمال کے بدلتے ہوئے انداز کا سامنا کرنا پڑا ہے‘۔

بی بی سی کا کہنا تھا کہ وہ ’نشریات کے روایتی طریقوں پر بہت زیادہ اخراجات کررہے ہیں اور ڈیجیٹل پر کیے جانے والے اخراجات ناکافی ہیں‘، ادارے کا ہدف 8 کروڑ پاؤنڈز یا ایک ارب 40 لاکھ ڈالر کی بچت کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بی بی سی اردو کا سیربین کی ریڈیو نشریات بند کرنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں صبح نشر ہونے والا ایک نیوز میگزین پروگرام ختم کیا جائے گا جبکہ ملازمتوں میں مزید کٹوتیاں فلیگ شپ سیاسی اور خبروں کے پروگرام کے ذریعے پروڈیوس کی جانے والی فلموں میں کمی کر کے کی جائیں گی۔

اس کے علاوہ قومی ریڈیو اسٹیشن 5 لائیو میں بھی نوکریاں ختم کی جائیں گی جس کے لیے اس نشریاتی ادارے میں کام کرنے والے پریزینٹرز کی تعداد پر نظر ثانی کی جائے گی۔

مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹیلی ویژن نشریات کے روایتی ناظرین کی تعداد میں مسلسل کمی ہورہی ہے بالخصوص 16 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں یہ رجحان زیادہ ہے۔

ادارے کے جاری بیان کے مطابق ’بی بی سی کے نیوز روم کو ’اسٹوری لیڈ‘ یعنی خبر پر مرکوز ماڈل کے حوالے سے دوبارہ منظم کیا جائے گا جس میں پروگرامز اور دیگر پلیٹ فارمز سے زیادہ خبروں پر توجہ دی جائے گی‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ انتظام ہو بہو نقل سے بچنے کے لیے کیا جارہا ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بی بی سی کی صحافت ناظرین کی مختلف اقسام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے‘۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا کرا سکتا ہے آپ کو ملازمت سے برطرف

جیسا کہ خبروں اور انٹرٹینمنٹ کے صارفین کی عادات میں تبدیلی آرہی ہے دیگر میڈیا اداروں کی طرح دنیا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی بھی، ناظرین کی تعداد میں اضافہ کرنے کے نت نئے طریقوں سے نبرد آزما ہے۔

کارپوریشن کو مساوی تنخواہ کے تنازع کا بھی سامنا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک ہی شو کرنے والی خاتون میزبان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اور انہیں مرد میزبان جرمی وائن کو دی جانے والی تنخواہ کے مقابلے میں رقم کے چھٹے حصے کی ادائیگی کی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ بی بی سی کو برطانیہ کی نئی حکومت کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے جس کی جانب سے دورانِ الیکشن جانبدارانہ رپورٹنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

حکومت اس سے قبل 2027 تک بی بی سی کی لائنسنس فیس کے ماڈل پر عمل پیرا رہنے پر قائم تھی جس سے گزشتہ برس 30 اپریل تک 3 ارب 70 کروڑ پاؤنڈز کے فنڈ حاصل ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل کا اپنا سوشل میڈیا نیٹ ورک بند کرنے کا اعلان

خیال رہے کہ ہر برطانوی شہری سالانہ لائسنس کی مد میں 2 سو 2 ڈالر ادا کرتا ہے لیکن وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’اپنے آپ سے پوچھیں کیا ایک ٹی وی میڈیا ادارے کو اس قسم کی فنڈنگ کا کوئی جواز بنتا ہے‘۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بی بی سی پاکستان میں حالاتِ حاضرہ اور خبروں پر مبنی پروگرام سیربین ریڈیو کی نشریات بند کرچکا ہے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز اور ٹیلیویژن کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں