• KHI: Partly Cloudy 22°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C
  • KHI: Partly Cloudy 22°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C

نقیب اللہ قتل کیس: عدالت نے گواہان کو طلب کرلیا

شائع February 3, 2020
نقیب اللہ محسود کو کراچی میں پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
نقیب اللہ محسود کو کراچی میں پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے نقیب اللہ محسود کیس قتل کیس میں گواہان کو 13 فروری کو عدالت میں طلب کرلیا۔

شہر قائد کی عدالت میں نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت ہوئی، جہاں سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار اور دیگر ملزمان پیش ہوئے۔

علاوہ ازیں مدعی کے وکیل صلاح الدین پہنور نے نیا وکالت نامہ جمع کروایا جس پر نقیب اللہ کے والد محمد خان کے انتقال کے بعد مقتول کے بھائی نے دستخط کیے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ تقریباً 2 سال سے جاری نقیب اللہ کیس کی پیروی کرتے کرتے گزشتہ ماہ دسمبر میں ان کے والد محمد خان بھی انتقال کرگئے تھے۔

نقیب اللہ کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ محسود ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھے، جنہیں سال 2018 میں کراچی میں سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں 'جعلی مقابلے' میں مار دیا گیا تھا۔

راؤ انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا لیکن اس کالعدم تنظیم کے جنوبی وزیرستان چیپٹر کے ترجمان نے راؤ انوار کے اس دعوے کو 'بے بنیاد' قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نقیب اللہ کا ان کی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے بھی سابق ایس ایس پی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کا کسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

نقیب اللہ، جن کا شناختی کارڈ پر نام نسیم اللہ تھا، ان کے بارے میں ایک رشتے دار نے ڈان کو بتایا تھا کہ نقیب دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: 5 ملزمان کی ضمانت مسترد

اس تمام معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا جبکہ جنوری 2019 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور دیگر 3 لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں افراد کے خلاف درج مقدمات کو خارج کردیا تھا۔

بعد ازاں مارچ میں اے ٹی سی نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔

تاہم اس کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جبکہ دیگر آٹھ ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں، اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2025
کارٹون : 24 دسمبر 2025