نقیب اللہ قتل کیس: 5 ملزمان کی ضمانت مسترد

24 جنوری 2020
کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کو قتل کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: فیس بک
کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کو قتل کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: فیس بک

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے سال 2018 میں پولیس مقابلے کے دوران قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کے کیس میں نامزد 5 ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

صوبائی دارالحکومت میں عدالت عالیہ نے ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، لہٰذا ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے۔

مزید پڑھیں: ’پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

بعد ازاں عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا، جسے بعد میں سناتے ہوئے کیس کے ایک ملزم پولیس اہلکار محمد اقبال سمیت دیگر ملزمان غلام نازک، اللہ یار کاکا، شکیل فیروزی اور رئیس عباسی کی ضمانت مسترد کردی گئی۔

خیال رہے کہ تقریباً 2 سال سے جاری نقیب اللہ کیس کی پیروی کرتے کرتے گزشتہ ماہ دسمبر میں ان کے والد محمد خان بھی انتقال کرگئے تھے۔

نقیب اللہ کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ محسود ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھا، جنہیں سال 2018 میں کراچی میں سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں 'جعلی مقابلے' میں مار دیا گیا تھا۔

راؤ انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا لیکن اس کالعدم تنظیم کے جنوبی وزیرستان چیپٹر کے ترجمان نے راؤ انوار کے اس دعوے کو 'بے بنیاد' قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نقیب اللہ کا ان کی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے بھی سابق ایس ایس پی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کا کسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

نقیب اللہ جن کا شناختی کارڈ پر نام نسیم اللہ تھا ان کے بارے میں ایک رشتے دار نے ڈان کو بتایا تھا کہ نقیب دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان انتقال کرگئے

اس تمام معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا جبکہ جنوری 2019 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور دیگر 3 لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں افراد کے خلاف درج مقدمات کو خارج کردیا تھا۔

بعد ازاں مارچ میں اے ٹی سی نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔

تاہم اس کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جبکہ دیگر آٹھ ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں، اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں