فنکار فلم ایوارڈ میں ’زندگی تماشا‘ کی پابندی پر آواز اٹھائیں، عثمان خالد بٹ

اپ ڈیٹ 08 فروری 2020
خالد عثمان بٹ کے علاوہ ماہرہ خان نے بھی فلم کی ریلیز روکے جانے پر رد عمل ظاہر کیا—فوٹو: فیس بک/ انسٹاگرام
خالد عثمان بٹ کے علاوہ ماہرہ خان نے بھی فلم کی ریلیز روکے جانے پر رد عمل ظاہر کیا—فوٹو: فیس بک/ انسٹاگرام

حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے گزشتہ ماہ 23 جنوری کو فلم ساز سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز روکتے ہوئے فلم کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

حکومت نے فلم کی نمائش، ریلیز سے محض ایک دن قبل ہی روک دی تھی، فلم ساز نے فلم کو 24 جنوری کو ریلیز کرنے کا اعلان کر رکھا تھا تاہم فلم پر دھمکیاں ملنے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر مداحوں اور فنکاروں سے مشورہ مانگا تھا کہ کیا انہیں دھمکیوں کی وجہ سے فلم کی نمائش روکنی چاہیے؟

سرمد کھوسٹ نے ’زندگی تماشا‘ پر خود کو ملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹس کرنے سمیت چیف جسٹس، صدر مملکت اور وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا تھا اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ معاملے کا نوٹس لیں۔

بعد ازاں سرمد کھوسٹ نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی سول کورٹ میں فلم سے متعلق خود کو ملنے والی دھمکیوں اور فلم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف بھی درخواست دائر کی تھی اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کی فلم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو روکا جائے۔

تاہم عدالتی فیصلے سے قبل ہی حکومت نے ’زندگی تماشا‘ کی نمائش روکتے ہوئے اس کا دوبارہ جائزہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

’زندگی تماشا‘ کے خلاف تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے مظاہروں کا اعلان کر رکھا تھا اور اس تنطیم کا دعویٰ تھا کہ فلم میں مذہبی افراد کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے تاہم سرمد کھوسٹ نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز روک دی

فلم کی نمائش روکے جانے کو تقریبا 2 ہفتے گزر جانے کے بعد حکومت کی جانب سے اس کی ریلیز کے حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا اور اب متعدد شوبز شخصیات نے ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز روکنے کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے دیگر ساتھی فنکاروں سے فلم سے متعلق آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

معروف اداکار عثمان خالد بٹ نے ٹوئٹر پر فنکاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ دبئی میں ہونے والے پہلے پاکستان انٹرنینشل اسکرین ایوارڈز (پیسا) ایوارڈ میں ’زندگی تماشا‘ کی نمائش روکے جانے کے خلاف آواز اٹھائیں۔

عثمان خالد بٹ نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز روکے جانے کا مقصد تمام فنکاروں کو روکنا ہے اور یہ کسی ایک فلم کا مسئلہ نہیں ہے، اس لیے تمام شوبز شخصیات کو پاکستان اسکرین ایوارڈز میں اس معاملے پر احتجاج کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ’زندگی تماشا‘ کے خلاف مظاہروں کو روکا جائے، سرمد کھوسٹ عدالت پہنچ گئے

انہوں نے کہا کہ کسی کے بھی اظہار خیال کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

عثمان خالد بٹ کے علاوہ اداکارہ ماہرہ خان نے بھی ’زندگی تماشا‘ کی نمائش روکے جانے پر معروف صحافی محمد حنیف کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ پر کمنٹ کیا اور کہا کہ اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنا دراصل جرم ہے۔

محمد حنیف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ زندگی تماشا کی نمائش روکے جانے پر خاموشی اختیار کرنا دراصل جرم ہے اور حکومت فلم کے حوالے سے ٹی ایل پی کے مطلب کا کام کر رہی ہے۔

اداکارہ میرا سیٹھی نے بھی ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے ٹوئٹ کی۔

زندگی تماشا کو 24 جنوری کو ریلیز کیا جانا تھا—اسکرین شاٹ
زندگی تماشا کو 24 جنوری کو ریلیز کیا جانا تھا—اسکرین شاٹ

تبصرے (0) بند ہیں