احسان اللہ احسان کے 'فرار' کا معاملہ: شہدا اے پی ایس کے لواحقین کا چیف جسٹس سے رجوع

اپ ڈیٹ 13 فروری 2020
شہید طلبہ میں سے ایک آجون خان کے والد نے درخواست جمع کرائی — فائل فوٹو / سراج الدین
شہید طلبہ میں سے ایک آجون خان کے والد نے درخواست جمع کرائی — فائل فوٹو / سراج الدین

شہدا آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کے لواحقین نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار پر چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سے رجوع کر لیا۔

چیف جسٹس کو اپنی درخواست میں سانحے میں شہید ہونے والے 15 طلبہ کے لواحقین نے کہا ہے کہ 'ہم لواحقین احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد اہلخانہ سمیت مبینہ طور پر فرار ہونے کی خبر سن کر سخت صدمے میں ہیں۔'

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سفاک دہشت گرد نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 147 طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ 'دہشت گرد کے فرار ہونے سے متاثرہ خاندان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں، احسان اللہ احسان کیسے ملک سے جانے میں کامیاب ہوا؟ کیا وہ تحویل سے فرار ہوا یا اسے کچھ شرائط کے ساتھ رہا کیا گیا؟ آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اسے کس معاہدے کے تحت اسے تین سال تک زندہ رکھا گیا؟'

درخواست میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ذمہ دار لوگوں کو نوٹس جاری کر کے وضاحت لی جائے۔

شہید طلبہ میں سے ایک آجون خان کے والد نے درخواست جمع کرائی، ان کا کہنا تھا کہ لواحقین نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کی تھی اور ان سے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا احسان اللہ احسان کے 'فرار' کی وضاحت کا مطالبہ

تاہم انہیں بتایا گیا کہ چیف جسٹس گلزار احمد ان دنوں سماعتوں میں مصروف ہیں اور پھر انہیں اجلاس کے لیے لاہور جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رجسٹرار نے یقینی دلایا ہے کہ آئندہ چند روز میں ان کی چیف جسٹس سے ملاقات کرائی جائے گی۔

دوسری جانب شہدا اے پی ایس کے لواحقین نے حملے کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اس پر تاخیری حربوں کا الزام عائد کیا۔

قبل ازیں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا احسان اللہ احسان کی ترکی میں مبینہ موجودگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ وزارت داخلہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے کہ وہ کہاں ہیں۔

شہدائے اے پی ایس فورم کے صدر ایڈووکیٹ فضل خان کی قیادت میں مظاہرین پشاور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور دہشت گرد گروپ کے سابق ترجمان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے حراست سے مبینہ طور پر فرار ہونے کی وضاحت دی جائے۔

احسان اللہ احسان مبینہ طور پر فرار

خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو ٹیپ رواں ماہ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے 11 جنوری 2020 کو 'پاکستانی سیکیورٹی اتھارٹیز کی حراست سے’ فرار ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ترکی میں موجود ہیں جبکہ متعدد ذرائع کا ماننا ہے کہ دہشت گروپ کے سابق ترجمان افغانستان میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی نے احسان اللہ احسان کے 'فرار' ہونے پر رپورٹ طلب کرلی

ذرائع کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان دہشت گردوں کو پکڑنے اور نشانہ بنانے کے لیے ہونے والے ایک آپریشن کے دوران مبینہ طور پر فرار ہوگئے جبکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا تھا، لیکن اس سے قبل جب کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے ان سے معلومات حاصل کی گئی اور اسی طرح کے ایک آپریشن میں وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

آڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے نام سے مشہور لیاقت علی کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے سامنے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت ہتھیار ڈال دیے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنی طرف سے وعدوں کی پاسداری کی لیکن پاکستانی عہدیداروں پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو قید میں رکھا گیا۔

خیال رہے کہ اس آڈیو کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہوئی تاہم انہوں نے دوران حراست سامنے آنے والی مشکلات اور فرار ہونے کے حوالے سے بتایا۔

تبصرے (0) بند ہیں